Maktaba Wahhabi

331 - 699
باندھ لیتی ہے،جیسا کہ وہ اس کے چہرے پر لٹکا ہوا ہے۔[1] گویا احرام کی حالت میں چہرے پر کپڑا اس طرح باندھنا یا لپیٹنا منع ہے،مطلق سر سے لٹکا کر چہرے کا پردہ کرنا منع نہیں،بلکہ ثابت ہے،جیسا کہ سابق میں کئی احادیث و آثار گزرے ہیں،لہٰذا جب احرام کی حالت میں بھی چہرے کو کھلا چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے تو عام حالات میں اس کا جواز کیونکر ہوسکتا ہے؟ بنت حضرت شعیب علیہ السلام اور تفسیرِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ: آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخر میں ایک اور بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ یہ چہرے کا پردہ صرف امت اسلامیہ کی خواتین پر ہی نہیں بلکہ باعصمت و عفت خواتین کا عہدِ قدیم سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ وہ غیر مردوں کی موجودگی میں بے مہابا و بے حجاب نہیں نکلا کرتی تھیں،بلکہ عام پردے کے ساتھ ساتھ چہرے کے پردے کا بھی اہتمام کیا کرتی تھیں،جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی اس بیٹی کے بارے میں ذکر ملتا ہے،جو ان کی بکریوں کو پانی پلانے کے نتیجے میں اپنے والدِ گرامی کے مشورے سے کنویں کے قریب ایک درخت کے سائے میں بیٹھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساتھ لے جانے آئی تھی،اس کے آنے کی کیفیت قرآنِ کریم نے سورۂ قصص کی میں یوں بیان فرمائی ہے: ﴿فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ﴾[القصص:25] ’’ان دونوں(لڑکیوں)میں سے ایک باحیا طریقے سے چلتی ہوئی آئی۔‘‘ اس با حیا طریقے کی تفسیر مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’جَآئَ تْ تَمْشِيْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ قَائِلَۃً بِثَوْبِھَا عَلٰی وَجْھِھَا لَیْسَتْ بِسَلْفَعٍ مِنَ النِّسَآئِ وَلَّاجَۃٌ خَرَّاجَۃٌ‘‘[2] ’’وہ با حیا طریقے سے چلتی ہوئی یوں آئی کہ اس نے اپنے چہرے کا اپنے کپڑے سے پردہ کیا ہوا تھا،وہ مردوں میں بے باکانہ چلنے والی اور بکثرت اندر باہر آنے جانے والی عورتوں کی قبیل سے نہیں تھی۔‘‘
Flag Counter