Maktaba Wahhabi

666 - 699
ظاہر ہے کہ جن عام مساجد کے سلسلے میں ہم بات کر رہے ہیں،انھیں ایسی کوئی مخصوص فضیلت حاصل نہیں ہوتی،ہاں اگر امامت،تدریس،وعظ،افتا اور حصولِ علم کی غرض سے مخصوص جگہ پر بیٹھنا ہو تو یہ بھی ناجائز نہیں،بلکہ مستحب ہے اور ایسی ضرورت پر جگہ مخصوص کرنے پر عدمِ کراہت کے بارے میں علماے سلف کا اتفاق ہے،جیسا کہ امام نووی نے قاضی عیاض سے نقل کیا ہے۔[1] یہ امور و افعال یعنی مساجد میں چیخ و چنگاڑ کرنا،نعرے مارنا،مسجد کی بعض جگہوں کو مخصوص کر لینا اور اپنی اجارہ داری ظاہر کرنا جو ممنوع ہیں،ان عرب ممالک کی مساجد میں تو دیکھنے میں نہیں آتے اور اگر کہیں کہیں شاذ و نادر مقامات ہوں بھی تو اولاً ’’النادر کالمعدوم‘‘ والی بات ہے کہ شاذ و نادر چیز کا حکم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،دوسرے یہ کہ جن شاذ و نادر جگہوں پر ایسے بعض ناجائز قسم کے افعال دیکھنے یا سننے میں آتے ہیں تو وہ وہی جگہیں ہیں،جہاں صرف برصغیر کے لوگ ہی نمازی ہوتے ہیں۔مقامی لوگوں میں سے اول تو وہاں ہوتا ہی کوئی نہیں اور اگر کوئی اِکا دُکا ہو تو بھی نہ ہونے کے برابر،لہٰذا پڑھے لکھے طبقے کے سمجھ دار لوگوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ اگر یہ امور جائز ہوتے تو یہاں بھی ہر جگہ ہوتے اور جو ہر جگہ نہیں تو پھر ضرور دال میں کچھ کالا ہے،لہٰذا ان سے بچنا چاہیے۔ برصغیر کے ممالک کی مساجد میں پائے جانے والے ایسے امور کا ذکر آیا ہی ہے تو لگے ہاتھوں دو ایک اور چیزیں بھی ذکر کر دیں،جو پہلے امور کی طرح ہی یہاں کی مساجد میں تو ہرگز کہیں نہیں پائے جاتے،لیکن ہم انھیں محض اس لیے ذکر کر رہے ہیں کہ ہمارے قارئین کی غالب اکثریت بھی برصغیر ہی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے۔ مسجد میں تعویذ گنڈے بیچنے،جادو ٹونے اور منتر جنتر کرنے والوں کا قیام: برصغیر کے ملکوں اور بعض دیگر ممالک کی مساجد میں پائے جانے والے ایسے ممنوع امور میں سے ایک مسجدوں میں تعویذ گنڈے بیچنے اور منتر جنتر کرنے والوں کا کاروبار بھی ہے،چنانچہ ’’المدخل‘‘ میں امام ابن الحاج نے لکھا ہے: ’’مسجد میں جانوروں کے بال یا لکھنے کا چمڑا فروخت کرنے والوں کو اس سے روکا جائے گا۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’إحیاء علوم الدین‘‘ میں مسجدوں سے متعلق منکرات یا ممنوع افعال
Flag Counter