Maktaba Wahhabi

308 - 699
اس قاعدے کو سامنے رکھتے ہوئے امام موصوف نے مسئلے کو اس کے اطلاق پر نہیں چھوڑا،جس کی رو سے ایک خوبصورت اور جوان کنیز کا بھی پردے کے بغیر رہنا لازم ہو اور وہ خوبرو کنیز اپنے بال بھی ننگے رکھے،بلکہ وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں،انھیں پردے کے معاملے میں قرآن پاک میں دی گئی گنجایش کا تذکرہ اور اس کا سبب یعنی زوالِ مفاسد کا ذکر کرنے،پھر بے نفس و بے خواہش لوگوں کے سامنے عورت کے اظہارِ زینت اور اس کے سبب یعنی مفاسد و فتن کا باعث بننے والی شہوت کے فقدان کے ذکر پر مشتمل ایک انتہائی مفید تمہید کے بعد شیخ الاسلام لکھتے ہیں: ’’ایسے ہی کنیز کا معاملہ بھی ہے کہ اگر اس کے حسن و جمال اور جوانی سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو ایسی کنیز پر بھی ضروری ہے کہ وہ بھی(آزاد عورت کی طرح)اپنی چادر کا پلو لٹکائے اور پردہ کرے،اس کا اپنی نگاہ کو بچانا اور دوسروں کا اس سے اپنی نگاہ کو بچانا واجب ہے۔کتاب و سنت میں بالعموم ہر قسم کی کنیزوں پر نگاہ ڈالنا مباح نہیں ہے اور نہ ان کا علی الاطلاق حجاب و پردے کو ترک کرنا اور اپنی زینت کا اظہار کرنا جائز ہے،بلکہ(بات صرف اتنی ہے کہ)قرآن نے کنیزوں کو وہ حکم نہیں دیا جو آزاد عورتوں کو دیا ہے اور سنت نے بالفعل ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق کر دیا ہے،لیکن ان کے مابین عمومیت کے لفظ سے فرق نہیں کیا(کہ جو ہر کنیز کو ہی شامل ہو)بلکہ مسلمانوں میں مروج یہ تھا کہ کنیزیں نہیں بلکہ آزاد عورتیں ان سے حجاب و پردہ کیا کرتی تھیں۔قرآن نے آزاد عورتوں میں سے بھی بوڑھی خواتین کو پردے کے احکام سے مستثنیٰ کر دیا ہے اور بعض مردوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے کہ بے نفس و بے خواہش قسم کے مردوں کے سامنے عورت اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے اور یہ استثنا اس لیے ہے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں میں شہوت معدوم ہے۔ ’’جب ان لوگوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے تو وہ کنیزیں جن کے ترکِ حجاب اور اظہارِ زیب و زینت سے فتنہ انگیزی کا خطرہ موجود ہے،وہ کنیزوں کی نسبت ترکِ حجاب کے عام حکم سے بالاولیٰ مستثنیٰ ہیں اور جیسا کہ شوہروں کے(دوسری بیویوں سے)لڑکوں اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کے سامنے بھی مخفی زینت کو ظاہر کرنا جائز نہیں،جبکہ وہ شہوت کو برانگیختہ کرنے والے لوگ ہوں۔
Flag Counter