Maktaba Wahhabi

698 - 699
بارے میں بھی لکھا ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ کے بھی مسجد میں پڑھے جانے کا ذکر ملتا ہے۔اس سلسلے میں کافی تفصیل ذکر کرنے کے بعد آخر میں اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَالصَّوَابُ مَا ذَکَرْنَاہُ أَوَّلًا وَإِنَّ سُنَّتَہٗ وَھَدْیَہُ الصَّلَاۃُ عَلَی الْجَنَازَۃِ خَارِجَ الْمَسْجِدِ،وَاللّٰہُ أَعْلَمُ‘‘[1] ’’صحیح تر بات وہی ہو جو ہم شروع میں ذکر کر آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر نمازِ جنازہ پڑھا کرتے تھے،سوائے کسی عذر کے اور جائز دونوں طرح ہی ہے،البتہ افضل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ مسجد سے باہر پڑھی جائے۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ نے ابو داود کی شرح معالم السنن میں لکھا ہے: ’’وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رضی اللّٰه عنہما صُلِّيْ عَلَیْھِمَا فِي الْمَسْجِدِ،وَمَعْلُوْمٌ أَنَّ عَامَّۃَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ شَھِدُوْا الصَّلَاۃَ عَلَیْھِمَا وَفِيْ تَرْکِھِمُ الْإِنْکَارَ الدَّلِیْلُ عَلٰی جَوَازِہٖ‘‘[2] ’’یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی اور یہ بات بھی واضح ہے کہ مہاجرین اور انصار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے عام حضرات نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور ان میں سے کسی کا اس چیز پر اعتراض نہ کرنا اس فعل کے جواز کی دلیل ہے۔‘‘ غرض کہ امام شافعی،امام احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ اور مدنی فقہا کی روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سب کے نزدیک عذر و ضرورت پر مسجد میں نمازِ جنازہ جائز ہے،علامہ ابن رشد،علامہ عبدالرحمن مبارکپوری اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ اور عام محدّثینِ کرام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔[3] ان کا استدلال سند و متن ہر اعتبار سے صحیح احادیث سے ہے۔آج کل مکہ مکرمہ کی مسجدِ حرام اور مدینہ طیبہ کی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نمازِ پنج گانہ ہی کے بعد کبھی ایک ایک اور کبھی کئی کئی جنازوں پر نماز پڑھی جاتی ہے اور اس کا سبب بڑا واضح ہے کہ حجاجِ کرام اور عمرے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی اکثریت انہی مساجدِ حرمین ہی میں نمازیں پڑھتی ہے اور اتنے بڑے بڑے اجتماعات کسی دوسری جگہ ممکن نہیں
Flag Counter