Maktaba Wahhabi

697 - 699
کو اچھا نہ سمجھا اور اس کی خبر ام المومنین رضی اللہ عنہا کو بھی ہوگئی تو انھوں نے فرمایا: ’’مَا أَسْرَعَ النَّاسُ إِلٰی أَنْ یَّعِیْبُوْا مَا لَا عِلْمَ لَھُمْ بِہٖ‘‘[1] ’’لوگ کتنی جلدی اس کام کو معیوب شمار کرنے لگے ہیں،جس کے بارے میں خود انھیں علم نہیں(کہ حقیقت کیا ہے؟)‘‘ ان لوگوں نے مسجد سے نمازِ جنازہ گزارنے کو معیوب کہا ہے،حالانکہ سہل بن بیضاء کی نمازِ جنازہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھی تھی۔ایک روایت میں ہے: {وَاللّٰہِ لَقَدْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلَی ابْنَيْ بَیْضَائَ فِي الْمَسْجِدِ سَھْلٍ وَأَخِیْہِ}[2] ’’اﷲ کی قسم! خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹوں یعنی سہل اور ان کے بھائی کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت سہل اور ان کے بھائی رضی اللہ عنہما دونوں کی نمازِ جنازہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھائی تھی۔تیسرے معروف صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی مسجد ہی میں پڑھی تھی،جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے کہ خلیفۂ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔[3] ایسے ہی موطا امام مالک،مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں یہ بھی مروی ہے کہ خلیفۂ دوم امیر المومنین حضرت عمرِ فاورق رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔[4] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بھی نمازِ جنازہ پڑھا لیا کرتے تھے،جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں سہل اور اس کے بھائی کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھے جانے کا پتا چلتا ہے،ایسے ہی آگے چل کر انھوں نے حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے
Flag Counter