Maktaba Wahhabi

695 - 699
’’ایک مرتبہ عید کے دِن بارش تھی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نمازِ عید مسجد میں پڑھائی۔‘‘ اس حدیث کے بارے میں امام ابو داود اور منذری رحمہ اللہ نے تو سکوت اختیار فرمایا ہے،جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ ضعیف نہیں ہے،البتہ تلخیص الحبیر میں حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن عبدالاعلیٰ بن ابی فروہ الفروی المدنی مجہول ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں میزان الاعتدال میں کہا ہے: ’’لَا یَکَادُ یُعْرَفُ‘‘ ’’یعنی یہ تقریباً غیر معروف ہیں(جن کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا)۔‘‘ اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ منکر ہے اور ابن القطان نے بھی اس راوی کے بارے میں کہا ہے کہ اس روایت کی سند کے سوا کسی دوسری روایت یا کتبِ رجال میں سے کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔[2] یہی وجہ ہے کہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے تحقیقِ مشکاۃ میں ضعیف قرار دیا ہے اور اسے ضعیف سنن ابی داود اور ضعیف ابن ماجہ میں وارد کیا ہے،لہٰذا یہ حدیث تو قابلِ استدلال نہیں،البتہ عذر سے احکام میں جو تغیر واقع ہوتا ہے،اس کی بنا پر بارش وغیرہ میں مسجد میں نمازِ عید کی گنجایش ملتی ہے۔اہلِ مکہ کے عمل کو بنیاد بناتے ہوئے شافعیہ کا مسجد میں نمازِ عید کے افضل ہونے کا قول محققین کے نزدیک مرجوح ہے،کیونکہ انھیں تو ممکن ہے کہ یہ عذر ہو کہ مکہ شہر کے باہر کھلی جگہ قریب نہیں،بلکہ وہ پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے اور مسجد حرام بڑی وسیع ہے،جو تمام اہلِ مکہ کے لیے کافی ہوجاتی ہے،لہٰذا اس کی وسعت اور باہر جگہ کی قلت والی مجبوری و عذر کی بنا پر وہ مسجد میں پڑھتے چلے آرہے ہیں،اس سے افضلیت ثابت نہیں ہوتی،بلکہ افضلیت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ والے عمل ہی سے ثابت ہوسکتی ہے،کیونکہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضیلت والی مسجد ہے،اس کے باوجود کتاب الام میں خود امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مسجد سے باہر عیدگاہ میں جا کر نمازِ عید پڑھی تو یہی افضل ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے فعل پر ہمیشگی نہیں کیا کرتے تھے،جو غیر افضل ہوتا،بلکہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
Flag Counter