Maktaba Wahhabi

694 - 699
وہ اُمور جو صرف بوقتِ ضرورت مسجد میں جائز ہیں،انہی میں سے ایک نمازِ عیدین بھی ہے،اگرچہ اس کے لیے افضل یہی ہے کہ نمازِ عیدین شہر یا گاؤں سے باہر بنائی گئی عید گاہ یا کھلی جگہ میں پڑھی جائے،کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الام کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے: ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مدینہ طیبہ کی عیدگاہ میں جاکر نماز عید پڑھا کرتے تھے،جو عمر بن شبہ کی کتاب ’’أخبار المدینۃ‘‘ کے مطابق مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار ہاتھ یا گز کی دوری پر واقع تھی۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا رضی اللہ عنہم اور اہلِ مکہ کے سوا عام شہروں کے لوگوں کا بھی یہی طرزِ عمل رہا سوائے کسی عذر کے۔مسجد میں عید کے جواز سے قطع نظر اس بات میں اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ افضل کیا ہے؟ مسجد میں یا باہر عید گاہ میں؟ امام مالک رحمہ اللہ باہر عید گاہ کی افضلیت ہی کے قائل ہیں،ان کا استدلال نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کے باوجود بھی ہمیشہ باہر عیدگاہ میں جا کر نماز پڑھنے ہی سے ہے،جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ مسجد میں نمازِ عید کے افضل ہونے کے قائل ہیں۔امام شوکانی و زرکشی رحمہ اللہ کا رجحان عیدگاہ میں عیدین کی افضلیت کی طرف ہے۔[2] عذر کی حالت میں ظاہر ہے کہ عام حالت کی نسبت گنجایش ہوتی ہے،یہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ مثلاً اگر بارش ہو رہی ہو یا بارش آنے کا غالب خدشہ موجود ہو اور عیدگاہ میں جانا مشکل ہو تو ایسے میں کسی بڑی مسجد میں بھی عید کی نماز پڑھی جا سکتی ہے،بلکہ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے،جو سنن ابو داود و ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: {إِنَّہٗ أَصَابَھُمْ مَطَرٌ فِيْ یَوْمِ الْعِیْدِ فَصَلّٰی بِھِمُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلَاۃَ الْعِیْدِ فِي الْمَسْجِدِ}[3]
Flag Counter