Maktaba Wahhabi

655 - 699
’’(رجم کے بعد)نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و بھلائی کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھی۔‘‘ عیدگاہ کے پاس رجم کے حکم سے بلکہ اس کے نفاذ سے بھی مسجد سے باہر نفاذِ حدود ہی کا پتا چلتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’اِذْھَبُوْا بِہٖ فَارْجُمُوْہُ‘‘ کے الفاظ سے اسی بات پر استدلال کیا ہے اور کتاب الاحکام میں یوں تبویب کی ہے: ’’باب من حکم في المسجد حتی إذا أتی علی حدٍ أمر أن یخرج من المسجد فیقام‘‘[1] ’’اس شخص کا بیان جس نے مسجد میں فیصلہ کیا اور جب حد یا سزا نافذ کرنے کا وقت آیا تو حکم فرمایا کہ مجرم کو مسجد سے باہر نکال کر اس پر حد قائم(یا سزا نافذ)کی جائے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس استنباط و استدلال پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو رجم کا معاملہ تھا،جو بہت بڑی سزا ہے اور اس آدمی کے خون وغیرہ سے مسجد کو کچھ لگنے کا واضح خدشہ ہوتا ہے،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد سے باہر لے جانے کا حکم فرمایا تھا،ایسے ہی رجم کے لیے گڑھا کھودنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے،جس کے لیے مسجد مناسب نہیں تھی،لیکن اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شخص کو مسجد سے باہر رجم کروانے سے یہ لازم آئے کہ دوسری حدود کا نفاذ بھی مسجد میں نہیں ہونا چاہیے،لیکن جیسا کہ معروف ہے،رئیس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ و ژرف نگاہی صحیح بخاری کے ابواب میں ہے اور وہ بات بھی بالکل صحیح ہے،اس مسئلے میں اس کا ثبوت انھوں نے یوں دیا ہے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ:((اِذْھَبُوْا بِہٖ فَارْجُمُوْہُ}کو بنیاد بنا کر یہ باب قائم کیا ہے اور مذکورہ اعتراض و اشکال کو پیشگی طور پر حل کرنے کے لیے ترجمۃ الباب ہی میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خلفاے راشدین حضرت عمرِ فاروق اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے آثار بھی تعلیقاً بیان کر دیے ہیں،جن سے ان کے استدلال کو تقویت حاصل ہوتی ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ میں موصولاً طارق بن شہاب کے طریق سے بیان کرتے ہیں: ’’أتي عمر بن الخطاب برجل في حد فقال:أخرجاہ من المسجد ثم اضرباہ‘‘[2]
Flag Counter