Maktaba Wahhabi

653 - 699
کرابیسی کی ’’أدب القضاء‘‘ میں ایک تیسرے قاضی کا ذکر بھی ہے اور ایک الگ انداز سے،چنانچہ ’’أدب القضاء‘‘ میں ہے: ’’إِنَّ الْحَسَنَ وَزُرَارَۃَ وَإِیَاسَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ کَانُوْا إِذَا دَخَلُوْا فِي الْمَسْجِدِ لِلْقَضَائِ صَلُّوْا رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَّجْلِسُوْا‘‘[1] ’’حضرت حسن اور زرارہ اور ایاس بن معاویہ رحمہم اللہ جب فیصلہ کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوتے تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ان سب آثار سے معلوم ہوا کہ مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن میں بنے ہوئے چبوترے وغیرہ پر بیٹھ کر ثالثی اور فیصلے صادر کیے جا سکتے ہیں۔صحن میں چبوتر سے یا ’’رحبہ‘‘ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اسے مسجد کا حصہ شمار کیا جائے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ راجح بات یہی ہے کہ یہ مسجد کا حصہ شمار ہوتا ہے،اس کا حکم بھی مسجد والا ہی ہوگا،اس میں اعتکاف بیٹھنا اور ہر وہ عمل جائز ہے،جس کے لیے مسجد شرط ہے،ان آثار میں اسی چبوترے کا تذکرہ ہے،جو مسجد میں شامل ہوتا ہے،ہاں اگر مسجد کے احاطے سے الگ کوئی چبوترہ بنایا گیا ہو تو اس کا حکم الگ ہوگا،اسے مسجد شمار نہیں کیا جائے گا۔یہ دو الگ الگ نوعیت کے چبوترے ہوئے اور ان دونوں کا حکم بھی الگ الگ ہی ہوگا،مسجد سے متصل کا مسجد والا اور مسجد سے الگ کا غیر مسجد والا حکم ہوگا۔ غرض کہ امام ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے مسجد میں قضا منعقد کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تو قدیم امر ہے،امام احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اس کے استحباب ہی کے قائل ہیں،لیکن بعض علما نے اسے مکروہ قرار دیا ہے،جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ محبوب یہ بات ہے کہ فیصلہ مسجد سے باہر کہیں کیا جائے،تاکہ کافر و مشرک اور حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے آسانی رہے۔ کرابیسی نے کراہت والوں کے اقوال ذکر کر کے لکھا ہے کہ سلف صالحین میں یہ مروج تھا کہ وہ مسجدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فیصلے کیا کرتے تھے اور اس پر دلالت کرنے والے کتنے ہی آثار ذکر کیے ہیں اور لکھا ہے کہ جب صورتِ حال یہ رہی ہے تو پھر عام مساجد میں یہ کیسے مکروہ ہوسکتا ہے؟ امام ابن بطال
Flag Counter