Maktaba Wahhabi

576 - 699
اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخیاں شمار ہونے والے اَشعار بھی ہیں،جنھیں اگرچہ نعت ہی کیوں نہ کہا جاتا ہو،جیسے کوئی کہے: اﷲ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ لینا ہے مانگ لیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نعت گوئی میں شعرا سے کم علمی یعنی علمِ دین کی کمی کی وجہ سے بہت کوتاہیاں اور لرزشیں ہوئی ہیں،حتیٰ کہ اگر کوئی منصف مزاج آدمی،جس کا عقیدہ بھی اہلِ سنت کے متفقہ عقائد کے مطابق ہو،آج تک لکھے جانے والے اُردو نعتیہ کلام کا ذخیرہ اپنے سامنے رکھ لے اور حق و ناحق یا صحیح و غیر صحیح اشعار الگ الگ کرتا چلا جائے تو بعید نہیں کہ غلط عقائد،مبالغہ آمیزی،نام نہاد عقیدت مگر فی الحقیقۃ جہالت جیسے عوامل کی تاثیر میں لکھے جانے والے ناحق و غیر صحیح اشعار کا پلڑا ہی بھاری نکلے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ بھلا ایسے اشعار مساجد میں پڑھے جانے بلکہ ’’گائے جانے‘‘ کے قابل کہاں ہیں؟ یہ ’’گائے جانے‘‘ کے الفاظ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ عوام کا مزاج تو بگڑا ہی تھا،شاعروں نے بھی ’’چلو تم اُدھر کو جدھر کی ہوا ہو‘‘ کی رو سے ہوا کا رُخ دیکھ کر فلمی گانے پڑھے یا سنے اور پھر انہی کے ردیف و قافیے یا طرز پر نعتیہ اشعار بھی کہہ دیے،جنھیں پھر ان گانوں کی طرز پر ہی سنایا جاتا ہے۔اب اگر ایسے اشعار نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مبالغہ و غلو جیسی صفات یا گستاخیوں اور شرکیہ عقائد و نظریات پر بھی مشتمل ہوں تو ایسے اشعار کو مساجد میں پڑھنا تو کجا،کہیں بھی پڑھنا کیسے روا ہو سکتا ہے؟ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے پرانے نام کو اس کے معنیٰ و مفہوم کے صحیح نہ ہونے اور اسے ایک طرح سے بھُلا دینے کے لیے یثرب کا نام ’’طیبہ‘‘ و ’’طابہ‘‘ رکھا اور جو مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ یا مدینہ منورہ ہے،اسے اس کے پرانے نام سے یاد کرنے کو مکروہ قرار دیا،لیکن آج کا نعت گو اور نعت خواں اَشعار میں پھر بھی یثرب ہی کہنے اور سنانے پر اصرار کرے تو ایسے شخص کے اشعار کو اور اسی طرح کے دوسرے امورِ غیر صحیحہ پر مشتمل اشعار کو مساجد میں پڑھنا روا نہیں ہو سکتا۔بعینہٖ کلام یا نعتوں میں کون کون سے غیر صحیح امور پائے جاتے ہیں؟ ان میں سے تقریباً تمام بڑے امور کا تذکرہ کسی حد تک ہماری سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتاب میں آچکا ہے،جو آپ پڑھ چکے ہیں۔[1] لہٰذا ہم یہاں ان
Flag Counter