Maktaba Wahhabi

575 - 699
گستاخی میں کہے گئے ہجویہ اشعار کا جواب دینے کا حکم ملا تھا۔ 2۔ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے کی ممانعت ہے جن کا تعلق عہدِ جاہلیت سے ہو اور ان میں ہمچوما دیگر سے نیست کا متکبرانہ نظریہ،بلاوجہ کا غلو اور ایسے ہی دیگر جاہلانہ امور کا تذکرہ ہو،باطل و لغو قسم کی گفتگو ہو،گل و بلبل،شراب و شباب اور غازہ و رخسار کا ذکر ہو،گویا جاہلانہ اور عاشقانہ ہر دو طرح کی شاعری ہو تو ایسے اشعار کی ممانعت ہے،لیکن جو اشعار ایسے ہوں کہ حق بات پر مبنی ہوں تو وہ مسجد میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں،کیونکہ خبیث لغو اشعار یا بیہودہ گفتگو احترام و تقدسِ مسجد کے منافی ہے،جبکہ اچھے اور مبنی برحق شعر میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔[1] یہاں اچھے بُرے اور حق و ناحق قسم کے اشعار کے مابین امتیاز کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں،کیونکہ ہر سلیم فطرت مسلمان یہ امتیاز کر سکتا ہے،البتہ یہاں ایک بات بطورِ خاص ذہن نشین کر لیں کہ مساجد میں ایسے اشعار پڑھے تو جا سکتے ہیں،جن میں توحیدِ باری تعالیٰ کو اچھے پیرائے میں پیش کیا گیا ہو،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت و رسالت کا بیان ہو،اتباعِ کتاب و سنت،اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت دلائی گئی ہو،حسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کی تلقین ہو،حقوق اﷲ اور حقوق العباد ادا کرنے پر اُبھارا گیا ہو اور اس کے لیے اچھی اور صاف ستھری زبان استعمال کی گئی ہو۔ایسے اشعار کو حمد کہیں یا نعت،نظم کہیں یا کچھ اور،ان کی گنجایش تو ملتی ہے۔ لیکن اگر کسی شاعر یا نعت گو نے اپنے کلام میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کے بھیس میں ایسی باتیں کہی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کے منافی بلکہ حقیقت کے بھی خلاف ہوں تو ایسے اشعار سے مساجد کو پاک و محفوظ رکھنا تو کجا انھیں تو کہیں بھی نہیں پڑھنا چاہیے اور نہ سننا ہی چاہیے۔یہی معاملہ حمد کا بھی ہے۔مثلاً کوئی شاعر راہِ صواب سے ہٹ کر یہ سمجھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نعوذ باﷲ ہر جگہ بذاتہٖ موجود ہے اور ہر چیز میں ہے جیسے حلولیہ یا وحدۃ الوجود کے باطل عقیدے والے معتزلہ سے متاثر ہو کر شعر کہے ہوں تو ایسے شاعر کے اشعار کو صرف مسجد سے ہی نہیں،اپنے گھر کی یا دفتر کی لائبریری سے بھی دُور رکھیں اور اپنی مجلسوں میں بھی ایسے لوگوں کی پذیرائی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے ہی ذاتِ باری تعالیٰ یا صفاتِ باری تعالیٰ سے متعلق شرکیہ اشعار بھی ہیں،اسی طرح ہی
Flag Counter