Maktaba Wahhabi

425 - 699
ہو اور اس لیے بھی کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک کعبہ شریف میں داخل نہیں ہوئے،جب تک اس میں سے تصاویر مٹا نہ دی گئیں۔‘‘ ایسے ہی حضرت عمرِفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’إِنَّا لَا نَدْخُلُ کَنَائِسَھُمْ وَالصُّوَرُ فِیْھَا‘‘ ’’ہم ان کے چرچوں میں داخل نہیں ہوا کرتے تھے،جب کہ ان میں تصویریں ہوتیں۔‘‘ وہ عبادت گاہیں قبر پر بنائی گئی مساجد کی طرح ہیں،جب کہ صحیحین میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے ایک گرجے کی خوبصورتی اور اس میں لگائی گئی تصویروں کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {أُوْلٰئِکَ إِذَا مَاتَ فِیْھِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا،وَصَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ،أُوْلٰئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ}[1] ’’ان میں سے جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا دیتے اور اس میں تصویریں بنا دیتے۔وہ قیامت کے دن اﷲ کے نزدیک بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘ ہاں اگر ان میں تصویریں نہ ہوں توصحابہ رضی اللہ عنہم نے گرجے میں نماز پڑھی ہے۔[2] واللّٰه اعلم یہیں لمحہ بھر کے لیے ہمارے وہ بہن بھائی بطور خاص توجہ فرمائیں جن کے گھر کے کمروں،انگیٹھیوں،الماریوں،شیلفوں اور میزوں پر اپنوں اور پرائیوں کی تصویریں لگی ہوتی ہیں اور ان میں سے بعض لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں،تو ان کی نماز کا کیا ہوگا؟ تصویر کی قباحت وشناعت کاندازہ تو اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما برستی بارش میں نماز پڑھنا گوارہ کر لیتے تھے،لیکن اس جگہ نماز نہیں پڑھتے تھے جہاں تصویریں ہوتیں۔لہٰذا ہمارے ان بہن بھائیوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے،جو اپنے گرد وپیش تصویریں آویزاں کرنے یا رکھنے کے بڑے رسیا ہیں۔اس سلسلے میں ہم اور زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے،کیونکہ تصویر سازی اور تصویر آویزی کا موضوع ہم قدرے تفصیل سے الگ ذکر کر چکے ہیں،جو ہماری کتاب ’’سود و رشوت اور دیگر ممنوع۔۔۔‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔
Flag Counter