Maktaba Wahhabi

424 - 699
دوسرا ان کا استدلال فتح مکہ کے وقت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ کعبہ کے اندر دو رکعتیں پڑھنے سے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت خانہ کعبہ میں تصاویر بھی تھیں۔جب کہ ان کی یہ بات محلِ نظر ہے۔کیونکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس میں نماز پڑھی،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک داخل نہیں ہوئے،جب تک تصاویر مٹا نہ دی گئیں،جو اس بات کی دلیل ہے کہ تصویروں کی جگہ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔[1] اس مسئلے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی تحقیق سے زیادہ وزنی ہے،کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: {إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَمَّا قَدِمَ أَبٰی أَنْ یَّدْخُلَ الْبَیْتَ،وَفِیْہِ الْاٰلِھَۃُ،فَأَمَرَ بِھَا فَأُخْرِجَتْ۔۔۔فَدَخَلَ الْبَیْتَ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معبودانِ باطلہ کی بیت اﷲ میں موجودگی کی حالت میں اندر جانے سے انکار کر دیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انھیں اندر سے نکال دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے۔‘‘ اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ بیت اﷲ کے اندر سے حضرت ابراہیم واسمٰعیلi کی تصویر بھی نکالی گئی۔ معابد وکنائس میں نماز کے بارے میں جب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوا ل کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں علما کے تین اقوال ہیں: 1۔ مطلق ممانعت:یہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے۔ 2۔ مطلق اجازت:یہ امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب کا قول ہے۔ 3۔ یہ قول صحیح ہے اور حضرت عمر بن خطاب نیز بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور امام احمد ودیگر ائمہ و فقہا کی اس پر نص ہے کہ اگر اس یہودی معبد یا عیسائی گرجے میں تصویریں ہوں تو وہاں نماز نہیں پڑھی جائے گی،کیونکہ اﷲتعالیٰ کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر
Flag Counter