Maktaba Wahhabi

399 - 699
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’بَابُ الصَّلَاۃِ عَلیٰ الْحَصِیْرِ‘‘ یعنی چٹائی پر نماز کے بیان کی تبویب میں اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند ابو یعلی میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے،وہ روایت ان کے نزدیک ثابت نہیں یا پھر صحیح و قوی احادیث کے مقابلے میں شاذ و مردود ہے۔ وہ روایت دراصل یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے تو قرآن میں فرمایا ہے: ﴿وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا﴾[الإسراء:8] ’’اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے حصیر بنایا ہے۔‘‘ تو کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حصیر(چٹائی)پر نماز پڑھا کرتے تھے؟ تو انھوں نے انکار کر دیا اور کہنے لگیں: ’’لَمْ یَکُنْ یُصَلِّيْ عَلَی الْحَصِیْرِ‘‘[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اس روایت سے غلطی میں نہیں آنا چاہیے،کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے۔حافظ عراقی نے اگرچہ اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے،لیکن خود انھوں نے بھی ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس میں شذوذ و نکارت ہے۔اگر اس کی کوئی حیثیت تسلیم بھی کر لی جائے تب بھی صحیح و قوی احادیث کی موجودگی میں کہا جائے گا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے علم کی حد تک نفی کی ہے اور جنھوں نے دیکھا ہے وہ مثبت ہیں اور معروف اصولی قاعدہ ہے کہ نفی کرنے والے پر اثبات کرنے والا مقدم ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول اکثر اہلِ علم چٹائی وغیرہ پر نماز کو مستحب قرار دیتے ہیں۔[2] چٹائی کے مختلف سائزوں کے اعتبار سے احادیث میں اس کے مختلف نام وارد ہوئے ہیں،جن میں سے بعض تو ایک دوسرے کے مترادف بھی ہیں،مثلاً وہ احادیث تو ذکر کی جا چکی ہیں،جن میں چٹائی کا لفظ آیا ہے،ایسے ہی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صحیحین وغیرہ میں مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور میرے چھوٹے بھائی سے جن کی چڑیا مر گئی تھی،ہنسی اور مزاح کے انداز سے فرمایا:
Flag Counter