Maktaba Wahhabi

282 - 699
عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ۔شَقَقْنَ مُرُوْطَھُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِھَا‘‘[1] ’’اﷲ تعالیٰ پہلی مہاجر صحابیات رضی اللہ عنہما پر رحم کرے کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے پلو ڈالے رہیں،تو انھوں نے اپنی قمیصوں کے نیچے استعمال کی جانے والی چادروں کو پھاڑا اور ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فَاخْتَمَرْنَ بِھَا‘‘ کی شرح کی ہے: ’’غَطَّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ‘‘(انھوں نے اپنے چہروں کو چھپا لیا) اور کتاب الاشربۃ میں خمر(شراب)کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَمِنْہُ خِمَارُ الْمَرْأَۃِ لِأَنَّہٗ یَسْتُرُ وَجْھَھَا‘‘[2] ’’اسی سے اوڑھنی یا دوپٹا بھی ہے کہ وہ بھی عورت کے چہرے کو ڈھانپ لیتا ہے۔‘‘ فتح الباری ہی میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرّا سے نقل کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں اپنے پیچھے کی طرف دوپٹے کا سارا کپڑا لٹکا دیتی تھیں اور آگے سے منہ سینہ کھلا رہتا تھا تو اﷲ نے ان کے پردے کا حکم دیا۔[3] ماہر علمِ اصول اور مفسرِ قرآن امام بیضاوی نے ’’أنوار التنزیل و أسرار التأویل‘‘ المعروف تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے تحت﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کی تعیین کرتے ہوئے مختلف امور کا تذکرہ اور اختلافِ اقوال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد نماز میں چہرے اور ہاتھوں کے ظاہر کرنے کے جواز کا تذکرہ کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے: ’’فَإِنَّ کُلَّ بَدَنِ الْمَرْأَۃِ الْحُرَّۃِ عَوْرَۃٌ،لَا یَحِلُّ لِغَیْرِ الزَّوْجِ وَالْمَحْرَمِ النَّظَرُ إِلَیٰ شَیْیٍٔ مِّنْھَا إِلَّا لِضُرَوْرَۃٍ کَالْمُعَالَجَۃِ وَتَحَمُّلِ الشَّھَادَۃِ‘‘[4] ’’آزاد عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے،شوہر اور محرم کے سوا کسی غیر محرم مرد کو عورت کے جسم کا کوئی بھی حصہ دیکھنے کی ہرگز اجازت نہیں سوائے علاج کے اور شہادت وغیرہ کی
Flag Counter