Maktaba Wahhabi

279 - 699
میں نے عرض کی کہ وہ میں نے اپنی اہلیہ کو پہنا دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {مُرْھَا فَلْتَعْجَلْ تَحْتَھَا غُلَالَۃً فَإِنِّيْ أَخَافُ أَنْ َتصِفَ حِجْمَ عِظَامِھَا}[1] ’’اسے حکم دو کہ وہ اس کپڑے کے نیچے دوسرا کپڑا(شمیز)بھی پہن لے،مجھے خدشہ ہے کہ اکیلے وہ کپڑا تمھاری اہلیہ کی ہڈیوں کا حجم ظاہر کرے گا۔‘‘ اس حدیث کا شاہد بھی سنن ابو داود،بیہقی اور مستدرک حاکم میں دحیہ بنت خلیفہ کلبی سے مروی ہے،لیکن اس کا ایک راوی ابن لہیعہ ناقابلِ حجت ہے،البتہ اس کی متابعت ابو العباس یحییٰ مصری نے کی ہے اور اس پر کلام کیا گیا ہے،لیکن امام مسلم نے ان سے حجت لی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے استشہاد کیا ہے۔[2] اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’عورت پر واجب ہے کہ وہ کسی ایسے کپڑے سے ستر پوشی کرے،جو جسم کے اوصاف ظاہر نہ کرے۔کپڑے کے ساتر ہونے کی یہ شرط ہے اور بظاہر وہ مصری کپڑا ایسا ہوگا،جو موٹا ہونے کے باوجود ایسا نرم و ملائم اور چکنا سا ہو کہ اگر اس کے نیچے سے بدن کا رنگ نہ بھی ظاہر ہو،لیکن وہ اعضاے جسم کے اوصاف واضح کرتا ہو،جیسے کہ آج کل کثرت کے ساتھ ریشمی کپڑوں کا معاملہ ہے اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں ایسا کوئی چست لباس پہنتی ہے تو پھر اس کے لیے واجب ہے کہ نماز پڑھتے یا باہر نکلتے وقت اوپر موٹی چادر وغیرہ اوڑھ لے،جس کے نیچے اس لباس کی چستی دب جائے اور جسم کے اوصاف ظاہر نہ ہونے پائیں۔‘‘ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی عورت کسی ایسے کپڑے میں ملبوس ہو،جو اعضاے جسم کی وصف گوئی کر رہا ہو تو میرے نزدیک محبوب تر بات یہ ہے کہ وہ ایسے کپڑے میں تب تک نماز ہر گز نہ پڑھے جب تک اس کے اوپر کوئی چادر نہ اُوڑھ لے۔‘‘[3] غرض کہ ستر پوشی کا یہ انداز صرف نماز ہی میں نہیں بلکہ گلی بازار نکلتے وقت بھی ایسے ہی ہے۔
Flag Counter