Maktaba Wahhabi

278 - 699
’’اس سے اگرچہ رنگ نظر نہیں آتا،لیکن وہ اعضاے جسم کی حد بندی تو کرتا ہے۔‘‘ امام بیہقی نے اس اثر کی سند کو مرسل کہا ہے،یعنی عبداﷲ بن ابو سلمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے،جبکہ آگے ساتھ ہی امام بیہقی نے لکھا ہے کہ اسی اثر کو مسلم البطین نے ابو صالح کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے،ان کے اس قول سے مرسل سند کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ ان آثار سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے یہاں طے تھا کہ ایسے پتلے کپڑے کا استعمال جائز نہیں،جو جسم کا رنگ ظاہر کرے یا اعضا کی حد بندی کرے،یہی وجہ ہے کہ سنن کبریٰ بیہقی میں تعلیقاً مروی ہے کہ دوپٹے کے بارے میں بتاتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’إِنَّمَا الْخِمَارُ مَا وَارَی الْبَشَرَۃَ وَالْشَّعْرَ‘‘[1] ’’دوپٹا وہ ہے جو بدن اور بالوں کو چھپا لے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے کہا ہے کہ ایسے کپڑے سے ستر پوشی کرنا واجب ہے جو بدن کے رنگ کو ظاہر نہ کرے اور اگر کوئی ایسا باریک کپڑا ہو جس کے نیچے سے رنگ ظاہر ہو تو اس کپڑے کا پہننا جائز نہیں،کیونکہ اس سے ستر پوشی کی غرض پوری نہیں ہوتی۔[2] کپڑا اتنا تنگ و چست نہیں ہونا چاہیے،جو موٹا ہونے کی وجہ سے اگرچہ بدن کے رنگ کا پتا نہ دیتا ہو،لیکن تنگ اور چست اور چپکا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ اعضاے جسم کے حدودِ اربعہ کی چغلی کھائے،کیونکہ کپڑے سے اصل غرض تو رفعِ فتنہ ہوتا ہے اور وہ ڈھیلے ڈھالے اور کھلے کپڑے کے سوا نہیں ہوپاتا،لہٰذا یہی واجب ہے،چنانچہ سنن کبریٰ بیہقی،معجم طبرانی،مصنف ابن ابی شیبہ،طبقات ابن سعد،مسند بزار،مسند احمد اور الاحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی میں حسن سند کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دحیہ کلبی نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مصری موٹا کپڑا تحفے میں دیا تھا،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرما دیا تو میں نے وہ اپنی بیوی کو پہنا دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: {مَالَکَ لَمْ تَلْبَسِ الْقِبْطِیَۃَ؟} ’’کیا بات ہے کہ تم نے وہ مصری کپڑا نہیں پہنا؟‘‘
Flag Counter