Maktaba Wahhabi

93 - 699
دونوں کی طرح احادیث کے مابین جمع و تطبیق یوں ہوگی کہ لا الٰہ الا اللّٰه پڑھ لینے سے جنت کا مستحق ہوجانے کا معنیٰ یہ ہے،جس پر اجماعِ امت بھی ہے کہ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والا ہر موحّد یقینا جنت میں داخل ہوجائے گا،یا معافی پا کر سیدھا ہی جنت میں چلا جائے گا،یا پھر اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اور اس پر جہنم کی آگ حرام ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس پر نارِ جہنم کی ہمیشگی حرام ہے۔(ان دونوں مسئلوں میں خوارج و معتزلہ کے برخلاف)اور وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمات ’’لا إلٰہ إلا اللّٰه ‘‘ ہوئے،وہ جنت میں داخل ہوجائے گا،وہ حدیث ممکن ہے کہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہو،جس کی زبان سے نکلنے والے آخری کلمات یہی اقرارِ توحید و رسالت ہوں،اگرچہ پہلے وہ اچھے بُرے ہر طرح کے ملے جلے اعمال والا ہو اور موت کے وقت اس اقرار کے صدور کی برکت سے اسے اﷲ کی رحمت اپنے سائے میں ڈھانپ لے اور پوری طرح اس کی نجات ہو جائے اور وہ جہنم پر حرام ہوجائے۔ برخلاف اس شخص کے جو ملے جلے اعمالِ خیر و شر والا ہے اور پھر آخری وقت میں اس کی زبان سے یہ اقرارِ توحید و رسالت بھی ادا نہیں ہوا(تو ایسا شخص اس حدیث کا مصداق نہیں ہوسکتا)ان احادیث کے سلسلے میں بعض دیگر تشریحی امور کی تفصیل مطلوب ہو تو امام نووی رحمہ اللہ کی شرح صحیح مسلم(1/1/218 تا 221)ملاحظہ فرمائیں۔ ان احادیث کے مفہوم کی تعیین کے لیے یہ تاویلات و تشریحات اشد ضروری ہیں،کیونکہ قرآن و سنت میں ایسی کثرت سے نصوص(آیات و احادیث)بھی ہیں،جن میں کتنے ہی شرعی واجبات کا ذکر آیا اور بتایا گیا ہے کہ اگر انھیں ترک کیا گیا تو یہ نارِ جہنم میں ڈالے جانے کا موجب ہوگا،ایسے ہی کثرت سے ایسے محرمات کا ذکر وارد ہوا ہے،جن کے ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ان کا ارتکاب کیا تو یہ موجبِ جہنم ہے،لہٰذا وعیدوں والی ان احادیث اور کلمۂ توحید و رسالت پڑھنے سے جنت لے جانے والی ان احادیث کے مابین مطابقت پیدا کرنے کے لیے یہ تاویلیں انتہائی ضروری ہیں،ورنہ پھر تو بشارت و وعید والی ان احادیث کے مابین ایک لا ینحل اشکال بلکہ تضاد نظر آئے گا۔[1]
Flag Counter