Maktaba Wahhabi

691 - 699
’’میں ایک بشر ہوں،میں بھی تمھاری طرح بھول جاتا ہوں،پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے(لقمہ دے کر)یاد دلا دیا کرو۔‘‘ اس واقعے میں محلِ شاہد یا مقامِ استدلال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ ہیں،جن میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لکڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہونے کے انداز کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں: ’’وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہٖ‘‘ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا۔‘‘ اس واقعے میں ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کچھ سمجھانے کے لیے بھی ایسا نہیں کیے ہوئے تھے،لہٰذا اس سے عام جواز کا پتا چلتا ہے،لیکن یہ جواز بھی مطلق نہیں ہے،بلکہ ایک شارح بخاری اسماعیلی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے بھی ممانعت والی احادیث کے ساتھ کوئی تعارض نہیں بنتا،کیونکہ ممانعت اس صورت میں ہے،جب کوئی نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو،کیونکہ انتظار کرنے والے کا حکم بھی نمازی ہی کا ہے اور یہ تینوں احادیث اس سے خالی ہیں،یعنی ان میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نماز کے انتظار میں تھے،بلکہ یہ مطلق حالت میں ہوا ہے،اس تیسری حدیثِ ذوالیدین رضی اللہ عنہ میں جو انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کا ذکر ہے تو یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول کے واقع ہوجانے کے بعد اس وقت رونما ہوا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مکمل کر چکے تھے اور سلام پھیر کر اپنی جگہ سے بھی ہٹ چکے تھے،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نماز میں تھے اور نہ نماز کے انتظار میں،لہٰذا جواز و عدمِ جواز والی احادیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہ رہا۔[1] اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کے سلسلے میں جو دو طرح کی احادیث آئی ہیں،ان میں باہم کوئی تضاد و تعارض نہیں ہے،بلکہ جن احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے،ان کا تعلق ان صورتوں سے ہے،جب کوئی نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو یا گھر سے نماز کے لیے آرہا ہو اور جن احادیث میں جواز وارد ہوا ہے،ان کا تعلق نہ نماز سے ہے اور نہ نماز کے انتظار سے ہے،بلکہ وہ عام حالت سے تعلق رکھتی ہیں۔
Flag Counter