Maktaba Wahhabi

682 - 699
’’أَيْ الْحَاضِرُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ‘‘[1] ’’یعنی وہ جو مسجد میں موجود تھے۔‘‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مسجد میں آمدو رفت متعدد احادیث میں مصرَّح ہے۔ملاحظہ ہو:مسند احمد وغیرہ۔ایک اور صحیح روایت میں فرمانِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’میں بچے کا رونا سن کر نماز ہلکی کر دیتا ہوں کہ کہیں یہ امر بچے کی والدہ پر گراں نہ گزرے۔‘‘ اسی طرح حدیث:((مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ إِذَا بَلَغُوْا سَبْعًا}’’بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دیں۔‘‘ بھی مسجد میں بچوں کی آمد مترشح ہے۔دوسری طرف محدّثینِ کرام نے چار پانچ سال کے بچے کا سماعِ حدیث بھی قابلِ اعتبار سمجھا ہے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے،جبکہ اسے عام مجلس میں آنے کی اجازت ہو،جس میں مسجد بھی شامل ہے۔حدیث میں وارد ہے: {إِنَّمَا بُنِیَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَتْ لَہٗ} ’’مسجدیں جس کام کے لیے بنائی گئی ہیں،وہی کام ان میں ہونا چاہیے۔‘‘ زیرِ حدیث امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مَعْنَاہُ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَالصَّلَاۃِ وَالْعِلْمِ وَالْمُذَاکَرَۃِ فِي الْخَیْرِ وَنَحْوِھَا‘‘ یعنی(اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ)مساجد اﷲ کی یاد،نماز،تعلیم و تعلّم اور امورِ خیر میں گفتگو کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘‘ لہٰذا عام حالات میں کسی کو حق نہیں کہ بچوں کو مسجد میں آنے سے روکے،البتہ بچے اگر شریر قسم کے ہوں،جس سے احترامِ مسجد اور آدابِ مسجد مجروح ہوتا ہو تو بطورِ تادیب ان کے خلاف مناسب کارروائی ہوسکتی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں بچوں کے کھیل کود پر دُرّے لگائے تھے۔ ایک روایت میں ہے: {جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ}[2] ’’اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے: ’’لَإِنَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ فِیْہِ وَلَا یُنَاسِبُھُمْ‘‘ ’’کیونکہ وہ کھیل کود کرتے ہیں اور وہ ان کے مناسب نہیں۔‘‘
Flag Counter