Maktaba Wahhabi

639 - 699
1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرک کی نجاست سے مراد یہ ہے کہ وہ عقیدے کے اعتبار سے اور حکماً نجس ہے،حسی طور پر یا جسماً نجس و ناپاک نہیں ہے۔آیت کی اس تاویل کے صحیح ہونے کے لیے ان کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سورت مائدہ کے شروع میں اور خاص کر اس کی پانچویں آیت میں جن عورتوں سے نکاح جائز ہے،ان کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے: ﴿وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾[المائدۃ:5] ’’اور ان لوگوں کی پاکدامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی(تمھارے لیے حلال ہیں)۔‘‘ تو اہلِ کتاب کی عورتوں کا مسلمانوں کے لیے اپنے نکاح میں لینا مباح کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان سے نکاح کر کے یہ تو ناممکن ہے کہ ایسی عورت کے شوہر کو اس کا پسینا کبھی نہ لگے گا،لیکن اس کے باوجود ایسا کوئی حکم نہیں کہ ایسی عورت کا شوہر محض اس کا پسینا لگنے ہی سے غسل کرتا پھرے،بلکہ اس کے شوہر کو بھی انہی اسباب پر غسل کا حکم ہے،جن پر ایک مسلمان عورت کے شوہر کو ہے،تو معلوم ہوا کہ غیر مسلم کا پسینا وغیرہ نجس نہیں ہے اور نہ وہ خود نجس العین ہیں،بلکہ ان کی نجاست حکمی ہے نہ کہ حسی۔یہی بات مسلمانوں کے لیے اہلِ کتاب کے کھانے کے حلال ہونے سے متعلق بھی اخذ کی جا سکتی ہے،کیونکہ سورت مائدہ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ﴾[المائدۃ:5] ’’اور اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال کیا گیا ہے۔‘‘ لہٰذا جب ان کی عورتیں حلال ہیں اور کھانا حلال ہے تو پھر وہ خود نجس العین کیسے ہوسکتے ہیں؟ بلکہ ان کی نجاست حکمی ہے،حسی نہیں۔یہی جواب کہ مشرکین نجس و ناپاک تو ہیں،لیکن ان کی نجاست حکمی ہے،حسی نہیں،ان کی دوسری اور تیسری دلیل والی دونوں احادیث کا بھی ہے۔ 2۔ اب رہا معاملہ وفدِ ثقیف کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد میں بٹھانے کا تو وہ واقعہ مانعین کے حق میں نہیں،بلکہ ان کے خلاف جاتا ہے،کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی مسجد میں بٹھایا ہے تو تعجب کیا اور کہا: ’’قَوْمٌ أَنْجَاسٌ!‘‘ ’’یہ نجس لوگ ہیں!‘‘
Flag Counter