Maktaba Wahhabi

606 - 699
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ کثرت سے سگریٹ نوشی کرنے والے کے نہ صرف منہ سے بلکہ ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے بلکہ ان کے تو کپڑوں سے بھی تمباکو کی مکروہ ترین بدبو آتی رہتی ہے۔کپڑوں یا ہاتھوں سے آنے والی بو تو کسی حد تک کم ہوتی ہے،جو شاید اتنی تکلیف دہ نہ ہو،جتنی تکلیف دہ اور اذیت رساں وہ بدبو ہوتی ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور نماز کے دوران تمباکو نوشی کرنے والے کے دائیں یا بائیں ایک ایک اور بعض دفعہ حساس قسم کے دو دو اور تین تین نمازیوں کو تکلیف دہ بدبو پہنچتی اور انھیں پریشان کرتی رہتی ہے۔یقین مانیں کے بعض دفعہ مسجد میں کسی ایسی جگہ پر نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے،جہاں کوئی تمباکو نوش نماز پڑھ کر گیا ہوتا ہے تو جہاں وہ سجدہ کر کے گیا تھا،وہاں سجدہ ریز ہونے پر دم گھٹنے کی حد تک تکلیف اس بو سے ہوتی ہے جو اس جگہ سے آرہی ہوتی ہے،اس جگہ پر چند لمحات کے سجدے میں اس تمباکو نوش کی مہربانی سے دم گھٹنے لگتا ہے۔آپ خود ہی اندازہ فرمائیں کہ ایسے میں خشوع و خضوع کیسے حاصل ہوگا؟ اور جب یہ حاصل نہ ہوگا تو اس کوتاہی کا ذمے دار کون ہوگا؟ یقینا تمباکونوش ہے،لہٰذا اس کے ممکنہ عقاب کا سزاوار بھی وہی ہوگا،تو یہ کتنے خسارے یا گھاٹے کا سودا ہے؟! پھر اگر یہ حقہ،سگریٹ،بیڑی،سگار اور نسوار جیسی اشیا مادی و طبی اعتبار سے ہی کچھ مفید یا کوئی معمولی ضرر رساں ہوتیں تو شاید زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہ رہتی،لیکن یہ اشیا تو ہر اعتبار سے ہی انتہائی نقصان دہ بھی ہیں،جسے مسلمان تو کجا غیر مسلم حکومتوں،اداروں اور صحافت نے بھی خاص موضوع بنایا اور اس کے نقصانات واضح کیے ہیں۔یہاں ہم صرف تمباکو کی مختلف شکلوں کا ہی نام لے رہے ہیں،کیونکہ نمازیوں اور مساجد میں جانے والوں کا عمومی شوق اسی حد تک ہی رہتا ہے،ہاں اگر کسی کی شقاوت و بدبختی اس سے بھی آگے حشیش یا چرس و افیون اور شراب وغیرہ تک بھی لے جاتی ہے تو وہ اس کی کم نصیبی ہے،ورنہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔چرس اور گھانجا کا بدبودار ہونا کس سے مخفی ہے؟ لیکن ہم فی الحال اس بات کو صرف تمباکو نوشی تک ہی محدود رکھ رہے ہیں،چنانچہ غیر مسلم انجمنوں نے انسدادِ تمباکو نوشی کی باقاعدہ مہمیں چلائیں اور غیر مسلم مفکرین نے تمباکو کے خلاف بیانات نشر کیے اور تمباکو کی خرابیاں بیان کیں۔ عقل سلیم میں تو یہ چیز بری ہی ہے،طبی تحقیقات نے بھی اس کے اضرار و نقصانات ثابت کر
Flag Counter