Maktaba Wahhabi

578 - 699
دلائیں،ہر کام کو صحیح طور پر سر انجام دینے پر زور دیں،امانت کے تحفظ کی ضرورت واضح کریں اور آپس میں اخوت و بھائی چارگی کا احساس بیدار کریں،کیونکہ یہی قوموں کی زندگی کا سرچشمہ اور دنیا و آخرت میں ان کی بہبود کا باعث ہے۔ 6۔ دلوں کو فاسد اوہام و خیالات سے پاک کریں،کیونکہ انہی کی وجہ سے باطل عقیدہ جنم لیتا ہے،اس طرح لوگوں میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور عاجزی کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ آگے چل کر علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں: ’’اﷲ جانتا ہے کہ واعظین نے اپنے ان فرائض و واجبات یا ذمے داریوں کو پورا نہیں کیا،بلکہ وہ اوہام و خرافات اور باطل و موضوع احادیث و اقوال کا سہارا لے کر اپنی محفلوں میں رنگ بھرتے،مگر در حقیقت اپنے وعظوں میں زہر گھولتے ہیں،اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط حدیثوں اور حقائق سے بعید باتوں کو منسوب کرتے ہیں اور ترغیب و ترہیب میں تشدّد و مبالغہ اور سہولت سے حسبِ منشا کام لیتے ہیں۔‘‘ پھر اس قسم کے واعظین سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں: ’’اے واعظو! نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے تمھیں انسیت سی ہوگئی ہے اور تم اسی کو حقائق کہتے ہو،حالانکہ یہ کھلا ہوا اور واضح گناہ ہے،جس کے حرام ہونے پر تمام علماے اسلام کا اتفاق ہے۔خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے(جو بہتر(72)صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی بیس کتب میں مروی ہے)جسے صحیح و متواتر حدیث قرار دیا گیا ہے: {مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ}[1] ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں لکھا ہے: ’’من گھڑت حدیث کا علم یا ظن ہوجانے کے بعد اس کی روایت حرام ہے۔(سوائے اس کا ضعف واضح کرنے والے کے لیے)اور جو جانتے ہوئے ایسا کرے گا،وہ اسی
Flag Counter