Maktaba Wahhabi

533 - 699
کمی نہ آنے پائے۔‘‘ بالکل اسی معنیٰ و مفہوم پر مشتمل ایک فتویٰ بھی ہماری نظر سے گزرا ہے،جو کہ چند ماہ پیشتر ہی ایک دینی پرچے میں شائع ہوا تھا،جس کے فتویٰ نویس غالباً مولانا حافظ عبدالستار الحماد تھے۔امام ابن المنیر کا قول نقل کر کے شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا تعاقب کیا ہے،جو حافظ عبد الستار الحماد کا تعاقب بھی شمار کیا جا سکتا ہے،اس میں صاحب فتح الباری لکھتے ہیں: ’’إِنَّ الْمَنْعَ إِنْ کَانَ لِلْحَثِّ عَلَیٰ إِتَّبَاعِ السَّلَفِ فِيْ تَرْکِ الرَّفَاھِیَۃِ۔فَھُوَ کَمَا قَالَ۔وَإِنْ کَانَ لِخَشْیَۃِ شُغْلِ بَالِ الْمُصَلِّيْ بِالزَّخْرَفَۃِ فَلَا،لِبَقَائِ الْعِلَّۃِ‘‘[1] ’’اگر مساجد میں نقش و نگار کی ممانعت کا سبب سلف صالحین کے ترکِ تنعّم کی اتباع کے نقطۂ نظر سے تھا تو پھر ایسے ہی ہے،جیسے موصوف نے کہا ہے اور اگر اس کا سبب یہ تھا کہ یہ نمازی کی توجہ کھینچتے ہیں تو پھر ان کی بات صحیح نہیں ہے،کیوں کہ یہ سبب تو آج بھی موجود ہے۔‘‘ اگر تھوڑی سی گہرائی کے ساتھ سوچا جائے تو صاحبِ فتح الباری رحمہ اللہ کے تعاقب میں مذکور دونوں وجوہات یعنی ترکِ تنعّم میں اتباعِ سلف صالحین اور نمازی کے مساجد میں بنائے جانے والے نقش و نگار میں کھو کر نماز سے بے توجہ ہوجانے سے بھی ایک کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ بیل بوٹوں اور نقش و نگار کی ممانعت محض ترکِ تنعّم میں اتباعِ سلف صالحین کے لیے نہیں تھی،بلکہ یہ حقیقت دوسرے سبب کے لیے ہی تھی کہ ان سے نمازی کی توجہ متاثر ہوتی ہے اور خشوع و خضوع میں فرق پڑتا ہے،حالانکہ یہ نماز کے لیے خاص اہمیت رکھنے والی چیزیں ہیں،حتیٰ کہ نماز بلا خشوع کو ’’جسم بلا روح‘‘ قرار دیا گیا ہے۔[2] جس نماز میں خشوع و خضوع نہ ہو،وہ نماز ایسے ہی ہے،جیسے کوئی بے جان و بے روح لاش ہو۔اس ممانعت کے دوسرے سبب کے لیے ہونے پر ان احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے جو ہم نے پچھلے اوراق میں ذکر کر دی ہیں،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پردہ ہٹا دینے کا حکم فرمایا۔
Flag Counter