Maktaba Wahhabi

527 - 699
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پردے کو اتار دیا۔‘‘ جبکہ چھبیس مقامات،جہاں نماز کی ممانعت شمار کی گئی ہے،انہی کے ضمن میں ہم ایک حدیث ذکر کر آئے ہیں کہ صحیح بخاری و مسند احمد کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول ہی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پردے کی موجودگی میں نماز پڑھی تو فرمایا: {أَزِیْلِيْ عَنِّيْ قِرَامَکِ ھٰذَا،فَإِنَّہٗ لَا تَزَالُ تَصَاوِیْرُہٗ تَعْرِضُ لِيْ فِيْ صَلَاتِيْ}[1] ’’اپنا یہ پردہ میرے سامنے سے غائب کر دو،کیونکہ اس کی تصویریں میری نماز میں میرے سامنے آتی رہی ہیں۔‘‘ ان احادیث میں ایک تو تصویروں کو آویزاں کرنے کی ممانعت و مذمت ہے،دوسرے یہ کہ ایسی کوئی سجاوٹ والی چیز جو تصویروں یا عام نقش و نگار والی ہو،نمازی کے سامنے یا قریب اس کا وجود ایک ناپسندیدہ چیز ہے،کیونکہ اس سے نماز میں خشوع و خضوع متاثر ہوتا ہے۔یہ تو گھر یا عام جگہ کا معاملہ ہے،جس سے اسلام کا مزاج سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ مساجد جو بنی ہی صرف عبادت کے لیے ہوں،ان میں نقش و نگار اور بیل بوٹوں کو کیسے گوارا کرے گا؟ یہی وجوہات ہیں کہ تعمیرِ مساجد کا بے شمار اجر و ثواب بیان کرنے اور اس کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرما دیا ہے کہ مساجد میں بیل بوٹے اور نقش و نگار بنا کر انھیں مزخرف نہ کیا جائے اور نہ ان کی تعمیر میں اسراف و تبذیر سے کام لیا جائے،چنانچہ سنن ابی داود اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {مَا أُمِرْتُ بَتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ}[2] ’’مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ میں اونچی اونچی مساجد تعمیر کروں۔‘‘ اس حدیث میں وارد لفظ ’’تشیید‘‘ کا معنیٰ شرح السنۃ میں امام بغوی نے،ایسے ہی ابن رسلان نے اونچی اونچی عمارت والی مسجد بنانا ہی لکھا ہے،اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ النور میں جو ارشادِ الٰہی ہے:
Flag Counter