Maktaba Wahhabi

517 - 699
معنوں یعنی نماز پر محمول کیا جائے۔یہ طریقہ ان چند علما نے بیان کیا ہے،جن کے نزدیک خانہ کعبہ میں فرضی و نفلی کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے،لیکن اس حل کی تردید ان طرقِ حدیث میں موجود ہے،جن میں خانہ کعبہ کے اندر نماز کی رکعتوں کی تعداد وغیرہ آئی ہے،جو آپ کے سامنے ذکر کی جا چکی ہیں۔ان احادیث کو پیشِ نظر رکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ کعبہ شریف میں پڑھی گئی نماز سے مراد شرعی و اصطلاحی نماز ہی ہے نہ کہ دعا۔ 2۔ اس تعارض کا دوسرا حل امام قرطبی رحمہ اللہ نے یہ پیش کیا ہے کہ جن احادیث میں نماز کا ذکر ہے،انھیں نفلی نماز پر محمول کیا جائے اور جن میں نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے،انھیں فرض نماز پر محمول کیا جائے۔یہ امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور قول کی رو سے ہے،جس سے دوسرے ائمہ و فقہا کا اتفاق نہیں،اس کی تفصیل ہم تھوڑا بعد میں ذکر کرتے ہیں۔ 3۔ اس کا تیسرا حل بخاری شریف کے ایک شارح مہلب رحمہ اللہ نے یہ پیش فرمایا ہے کہ ممکن ہے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو مرتبہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ہوں،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو اور ایک مرتبہ نہ پڑھی ہو۔ 4۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک چوتھا حل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے نزدیک زیادہ صحیح طریقۂ موافقت یہ ہے کہ دونوں طرح کی احادیث کو دو الگ الگ اوقات کے ساتھ خاص کیا جائے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور حجۃ الوداع کے موقع پر کعبہ شریف میں نماز نہیں پڑھی،کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نماز کی نفی کی ہے،جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی سے نہیں بلکہ(دوسری روایت میں)خود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی نماز پڑھنا ثابت کیا ہے۔اگر ان دونوں طرح کی احادیث کو اس طرح دو اوقات کے ساتھ الگ الگ خاص کر دیا جائے تو تعارض ہی ختم ہوجاتا ہے۔[1] صاحبِ فتح الباری نے کہا ہے کہ یہ طریقۂ توافق و تطابق تو بہت ہی اچھا ہے،لیکن خود اس
Flag Counter