Maktaba Wahhabi

472 - 699
سے لے کر 96ھ)کے مابین ہی تھا۔[1] حافظ ابن عبدالہادی نے ابو زید عمر بن شبہ النمیری کتاب ’’أخبار المدینۃ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے مشائخ و اساتذہ سے اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ولید کی طرف سے مدینے کے گورنر تھے تو انھوں نے 91ھ میں مسجدِ نبوی کی تجدید و تعمیر کی،اسے منقش پتھروں سے بنایا،اس کی چھت کو ساگو ان کی لکڑی اور سونے کے پانی سے مزین کیا،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کے حجرے یا مکانات گرا دیے گئے اور انھیں مسجد میں شامل کر دیا۔انھوں نے قبرِ مقدس کو بھی مسجد میں شامل کر دیا۔آگے موصوف نے وہ آثار ذکر کیے ہیں جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی تجدید و تعمیرِ مسجدِ نبوی اور توسیع و اضافہ شدہ جگہ پر نماز کے مسجدِ نبوی ہی میں نماز کے حکم میں ہونے(توسیع میں بھی نماز کے عام مساجد سے ہزار گنا زیادہ ثواب ہونے)سے تعلق رکھتے ہیں۔ حافظ ابن عبدالہادی نے اپنے کلام میں حجرۂ نبوی کے مسجدِ نبوی میں داخل کیے جانے کے سال کی تعیین نہیں کی،کیوںکہ اس سلسلے میں ابن جریر اور ابن شبّہ کی سال کی تعیین کہ وہ اوّل الذکر کے مطابق 86ھ سے لے کر 96ھ کے مابین اور ثانی الذکر کے مطابق 91ھ ہے۔ہر دو کی استنادی حیثیت تو محدّثین کرام کی طرز پر قابلِ حجت نہیں،البتہ اس سلسلے میں مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ توسیع کا واقعہ جس میں حجرۂ نبوی کو مسجدِ نبوی میں داخل کیا گیا ہے،یہ ولید کے عہدِ حکومت میں رو پذیر ہوا اور یہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ اس وقت تک صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔البتہ ایک روایت جو مشیخۃ ابو عبداﷲ الرازی میں ہے،اس میں مذکور ہے کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے سو سال کی عمر میں 91ھ میں مدینے میں وفات پائی اور وہ مدینے میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے،لیکن یہ روایت معضل ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الإصابۃ في تمییز الصحابۃ‘‘ میں امام زہری رحمہ اللہ کا قول بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے،جب کہ وہ بھی معضل یا مرسل ہے۔نیز ’’الإصابۃ‘‘ میں ہی ہے کہ بعض نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی وفات اس سے پہلے بتائی ہے اور ابن ابی داود نے اس زعم کا اظہار کیا ہے کہ ان کی وفات اسکندریہ میں ہوئی تھی۔تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جزماً کہا ہے کہ ان کی وفات 88ھ میں ہوئی تھی۔[2]
Flag Counter