Maktaba Wahhabi

462 - 699
’’قبروں پر(مجاور بن کر)مت بیٹھو اورنہ ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح کے ’’باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور‘‘ کی تبویب میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے،کیونکہ انھوں نے اس تبویب کے ساتھ ہی تعلیقاً یہ واقعہ بھی ذکر کر دیا ہے کہ جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک خیمہ لگائے رکھا اور پھر اُٹھا لیا۔تو لوگوں نے ایک غیبی آواز سنی: ’’أَلَا ھَلْ وَجَدُوْا مَا فَقَدُوْا؟‘‘ ’’بتاؤ! بھلا انھیں ان کا فوت شدہ شخص واپس مل گیا ہے؟‘‘ غیب ہی سے اس کا جواب بھی آیا اور کہنے والے نے کہا: ’’بَلْ یَئِسُوْا فَانْقَلَبُوْا‘‘ ’’کچھ نہیں ملا بلکہ مایوس ہو کر چلے گئے۔‘‘ اس اثر کو اس باب کے تحت لانے میں امام صاحب نے قبلہ جہت قبر ہونے یا قبر کے قریب ہونے کی شکل میں نماز پڑھنے کی کراہت کی طرف لطیف سا اشارہ کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ جو شخص قبر پر لگائے گئے خیمے میں رہے گا،وہ یقینا وہاں نماز بھی پڑھے گا،جس سے قبر کے پاس عبادت گاہ بنانا لازم آتا ہے اور ممکن ہے کہ قبر جہتِ قبلہ ہو تو ایسے میں کراہت اور بھی بڑھ جائے گی۔امام بخاری کے اس لطیف اشارے کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے ’’عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ میں بیان کیا ہے۔[1] علماے احناف میں سے مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی نے ’’الکوکب الدري علی جامع الترمذي‘‘ میں لکھا ہے: ’’قبروں پر مساجد کا تعمیر کرنا(ناجائزہے)کیونکہ اس میں یہودیوں کے اپنے انبیا و کبرا کی قبروں پر معابد کی تعمیر سے تشبہ پایا جاتا ہے۔نیز اس میں میت کی تعظیم اور قبر کے جہتِ قبلہ ہونے کی صورت میں بت پرستوں سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔‘‘ آگے وہ لکھتے ہیں: ’’وَکِرَاھَۃُ کَوْنِہٖ فِيْ جَانِبِ الْقِبْلَۃِ أَکْثَرُ مِنْ کِرَاھَۃِ کَوْنِہٖ یَمِیْناً أَوْ یَسَاراً،وَإِنْ
Flag Counter