Maktaba Wahhabi

454 - 699
اس شخص اور بعد میں آنے والے لوگوں کے فتنے(شرک)میں مبتلا ہونے کے خدشے کی بنا پر یہ مکروہ ہے۔‘‘ یہ کراہت تحریمی ہے،جیسا کہ ان کی کتاب ’’الرسالۃ‘‘(ص:343)سے پتا چلتا ہے۔ یہ حدیث چونکہ مشکوٰۃ شریف میں بھی وارد ہے،چنانچہ اس کی شرح بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری ’’المرقاۃ‘‘(2/372)میں لکھتے ہیں: ’’قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس میں اس قدر تعظیم اور غلو ہے کہ گویا صاحبِ قبر کو معبود بنادیا جاتا ہے۔اگر تو یہ تعظیم حقیقتاً اس قبر اور صاحبِ قبر کی ہے تو یہ کفر یہ فعل ہے اور اس سے مشابہت کرنا مکروہ ہے۔یہ مکروہ بھی حرام کے معنوں میں ہوگا اور اسی معنیٰ میں اپنے سامنے جنازہ رکھ کر کسی فرض نماز کو ادا کرنا بھی ہے(جیسا کہ آج کل بعض جگہوں پر یہ غلطی کی جاتی ہے،حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اگر مسجد ہی میں نماز جنازہ پڑھنی ہو تو فرض نماز مکمل ہونے تک جنازہ کو صفوں کے پیچھے رکھا جائے،جیسا کہ سمجھ دار اور اچھے عقیدے کے پیش امام کرتے ہیں اور فرضوں سے فارغ ہوکر جنازہ لایا جائے اور نماز جنازہ پڑھی جائے)۔‘‘ [1] اس تیسرے معنیٰ کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق میں موصولاً مروی ہے،جس میں ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیںکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کُنْتُ أُصَلِّیْ قَرِیْبًا مِنْ قَبْرٍ،فَرَآنِيْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ:اَلْقَبْرَ اَلْقَبْرَ‘‘[2] ’’میں ایک قبر کے قریب نماز پڑھ رہاتھا کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے قبر قبر کہہ کر مجھے متنبہ کیا۔‘‘ کتاب الصلوٰۃ لابی نعیم میں وارد طریق میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب اس بات کا پتا چل گیا کہ میرے نزدیک ہی سامنے قبر ہے تو میں نے وہاں سے آگے گزر کر نماز پڑھی۔[3]
Flag Counter