Maktaba Wahhabi

449 - 699
مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں وارد حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں: {نَھَیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ،وَأَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ،وَأَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ}[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبر کو گچ(وغیرہ)سے پختہ بنایا جائے اور یہ کہ اس پر(مجاور بن کر)بیٹھا جائے اور یہ کہ اس پر کچھ تعمیر کیا جائے۔‘‘ اس حدیث سے اس بات کی وضاحت بھی ہوگئی ہے کہ قبر پر صرف مسجد بنانا ہی ممنوع نہیں بلکہ کوئی بھی چیز تعمیر کرنا جائز نہیں۔اس مطلق نہی میں قبّہ یا گنبد وغیرہ بھی آگئے۔اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’شرح الصدور في تحریم رفع القبور‘‘ میں لکھا ہے: ’’اس میں قبروں پر کچھ تعمیر کرنے کی ممانعت کی صراحت ہے۔نیز یہ حدیث اُس پر بھی صادق آتی ہے،جو قبر کے گڑھے کے ارد گرد دیوار وغیرہ تعمیر کرے،جیسا کہ کثیر تعداد میں لوگ میت کی قبر پر ایک ہاتھ یا اس سے بھی زیادہ اونچی کرتے ہیں،کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ نفس قبر ہی کو مسجد یا عبادت گاہ بنایا جاسکے۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس تعمیر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو قبر سے متصل اور قریب ہو۔ یہ حدیث اُس پر بھی صادق آتی ہے،جو قبر کے قریب اردگرد کچھ بنائے،جیسا کہ گنبد،مساجد،مزارات وغیرہ ہیں،جب کہ قبر اس کے وسط میں یا کسی بھی ایک جانب میں ہو۔یہ بھی قبر پر کچھ تعمیر کرنے میں ہی آتا ہے،اور یہ کسی صاحبِ فہم سے پوشیدہ نہیں۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں شہر یا گاؤں پر فصیل بنائی ہے یا کہاجائے گا کہ فلاں شخص نے فلاں جگہ پر مسجد بنائی ہے،جب کہ فصیل تو صرف شہر یا گاؤں کے اردگرد ہوتی ہے نہ کہ ان پر اور اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا کہ اس دیوار کی تعمیر جن جوانب پر ہوئی ہے،وہ وسطِ شہر یا گاؤں یا جگہ کے قریب ہوں،جیسا کہ چھوٹے شہر،چھوٹے گاؤں یا چھوٹی جگہ میں ہو سکتا ہے یا وسط سے دور ہوں،جیسا کہ بڑے شہر،گاؤں یا جگہ کی شکل میں ہو سکتا ہے۔جو کہے کہ لغتِ عرب میں یہ اطلاق ممنوع ہے تو وہ لغتِ عرب کو جانتا ہی نہیں،نہ اس کی زبان سمجھتا ہے اور نہ کلامِ عرب میں کلمات کے صحیح استعمال ہی کو جانتا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter