Maktaba Wahhabi

438 - 699
’’اﷲ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا۔اگر یہی خدشہ نہ ہوتا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو ظاہر رکھا جاتا(یعنی گھر سے باہر بنائی جاتی)لیکن اس میں خدشہ تھا کہ لوگ کہیں اسے عبادت گاہ نہ بنالیں(اس لیے قبر کو گھر کے اندر بنایا گیا تھا)۔‘‘ اس حدیث میں وارد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے معلوم ہوا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے اندر اس لیے دفن کیا گیا،تاکہ بعد میں آنے والوں میں سے ضعیف العقیدہ لوگ کہیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو بھی عبادت گاہ نہ بنا لیں۔ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مرنے کے بعد تدفین کے لیے قبرستان ہی صحیح جگہ ہے۔انبیا کے سوا کسی کو گھر میں دفن کرنا صحیح نہیں ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر میں دفن کیا جانا اس مسئلے میں دلیل نہیں بن سکتا۔ویسے بھی سنت یہی ہے کہ میت کو قبرستان میں دفن کیا جائے،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قبرستان ہی میں دفن کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی صحابی کو اس کے گھر میں دفن کرنے کا حکم نہیں فرمایا اور نہ کوئی اپنے گھر میں دفن کیا گیا۔یہی اصل سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بقیع میں دفن کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے وقت صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بقیع میں دفن کیا جائے یا کہاں؟ مختلف آرا سامنے آئیں۔کسی نے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دفن کرتے ہیں،جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مَعَاذَ اللّٰہِ! أَنْ نَجْعَلَہٗ وَثْناً یُّعْبَدُ‘‘ ’’ہم اﷲ کی پناہ مانگتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مقدس کو ایسا وثن بنا دیں جس کی پوجا ہوا کرے۔‘‘ بعض نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بقیع میں دفن کر دیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ضعیف العقیدہ لوگوں سے غلط افعال کے صدور کے خدشے کی بنا پر اس رائے کو بھی ناپسند فرمایا۔تب صحابہ نے کہا: ’’فَمَا تَرٰی أَنْتَ یَا أَبَا بَکْرٍ‘‘ ’’اے صدیق! آپ ہی بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے؟‘‘ تواُنھوں نے فرمایا:
Flag Counter