Maktaba Wahhabi

436 - 699
’’کھجوروں کو مسجد کی جانب قبلے میں نصب کر دیا گیا اور مسجد کے سامنے کی دیوار کے دونوں بازوؤں پر(جہاں چوکھٹ کی لکڑیاں ہوتی ہیں)پتھر لگا دیے گئے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر اٹھا اٹھا کر لانے لگے اور ساتھ ہی ساتھ وہ رجزیہ کلام(جنگی ترانے)پڑھتے جاتے تھے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ یہ فرماتے جاتے تھے: اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الْآخِرَۃِ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُھٰجِرَۃِ[1] ’’اے اﷲ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے۔اس لیے انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔‘‘ اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ ہبہ پا کر یا خرید کر حاصل کردہ مقبرے یا قبرستان میں ایساتصرف جائز ہے۔نیز اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ پرانی قبریں جو حرمت والی نہ ہوں،یعنی کفار ومشرکین کی ہوں،انھیں کھودا یا مسمار کیا جا سکتا ہے اور ایسی جگہ سے ہڈیاں وغیرہ نکال کر وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور وہاں نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ مسجد نبوی کی جگہ کے مالکوں یعنی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے نھنیالی قبیلہ بنو نجار نے اس جگہ کی قیمت وصول نہیں کی تھی،بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ جگہ وقف کر دی تھی اور اس کا معاوضہ اﷲ پر چھوڑ دیا تھا۔جب کہ کتبِ سیرت میں اس کے برعکس مذکور ہے کہ انھوں نے قیمت لے کر زمین دی تھی۔ دوسری بات یہ کہ صحیح بخاری و دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک تک مسجد نبوی اینٹوں کی تھی،اس کی چھت کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں کی تھی اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے۔حضرت ابوبکر صدیق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی اضافہ نہ کیا،البتہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے اس میں کچھ اضافہ کیا۔اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رکھی ہوئی بنیادوں پر ہی اینٹوں اور کھجور کی ٹہنیوں سے بنایا اور اس کے ستون لکڑی کے بنائے،پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس میں تبدیلی اور بہ کثرت اضافہ کیا۔اس کی دیواریں منقش پتھروں سے اور اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنائے اور اس کی چھت ساگوان کے درخت سے بنائی تھی۔
Flag Counter