Maktaba Wahhabi

412 - 699
جانے کی قسم کھالی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عرصہ اپنے اس بالاخانے میں گزارا،جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بیٹھے بیٹھے نماز پڑھائی،جب کہ وہ سب کھڑے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر کر نماز مکمل کرلی تو فرمایا:امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے،لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو،جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدو کرو۔اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں گیارہ مقامات پر لائے ہیں اور اس سے ہر مرتبہ نئے سے نیا مسئلہ ہی اخذ کیا ہے۔’’بَابُ الصَّلَاۃِ فِيْ السُّطُوْحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ‘‘ کے تحت لاکر اس حدیث سے چھت اور لکڑی پر نماز کے صحیح ہونے پر استدلال کیا ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بالاخانہ امام ابن بطال کے بقول لکڑی سے بنا ہوا تھا،جیسا کہ کھجور کے تنوں کی سیڑھی سے بھی اندازہ ہوتا ہے۔اگر یہ مانا جائے کہ سیڑھی کے کھجور کا تنا ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ سارا بالاخانہ ہی لکڑی کا ہو تو پھر کم از کم اس حدیث میں چھت پر نماز کے جواز کی دلیل تو صریحاً موجود ہے۔بخاری شریف کے مذکورہ باب میں تعلیقاً،اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر مروی ہے: ’’صَلّٰی أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ عَلٰی سَقْفِ الْمَسْجِدِ بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ‘‘[1] ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر امام کی نماز کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔‘‘ مصنف ابن شیبہ کی سند میں ایک راوی صالح مولی توامہ ہے،جس میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے،لیکن سنن سعید بن منصور میں یہی اثر ایک دوسرے طریق سے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے اس اثر کو قوت حاصل ہو جاتی ہے۔[2] اگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالاخانے کو لکڑی سے تیار شدہ مان لیا جائے تو لکڑی کے تختے پر نماز کا جواز واضح ہے۔اگر اس بالاخانے کو لکڑی کا نہ بھی مانا جائے تو بعض دیگر احادیث میں لکڑی پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter