Maktaba Wahhabi

377 - 699
نہایت عجیب بات ہے،کیونکہ یہ حدیث تو اس کے برعکس عدمِ جواز پر دلالت کرتی ہے،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھتے نہیں رہنا دیا،بلکہ ان کا رخ ہی موڑ دیا اور اگر یہ جائز ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں کرتے؟‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کے فوائد ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَمِنْھَا تَحْرِیْمُ النَّظْرِ إِلَی الْأَجْنَبِیَّۃِ،وَمِنْھَا إِزَالَۃُ الْمُنْکَرِ بِالْیَدِ لِمَنْ أَمْکَنَہٗ‘‘[1] ’’ان فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے اور یہ کہ اگر کسی کے لیے ممکن ہو تو برائی کو قوتِ بازو سے مٹانا ضروری ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی ایک علمی و ادبی کتاب ’’روضۃ المحبین‘‘ میں حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے واقعے والی اسی حدیث کو نقل کر کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی انکار و نکیر کے بارے میں لکھا ہے: ’’وَھٰذَا مَنْعٌ وَّ إِنْکَارٌ بِالْفِعْلِ فَلَوْ کَانَ النَّظْرُ جَآئِزاً لَأَقَرَّہٗ عَلَیْہِ‘‘[2] ’’یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عملی طور پر ممانعت و نکیر تھی۔اگر نظر جائز ہوتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کو دیکھتا رہنے دیتے،لیکن ایسا نہیں ہے۔‘‘ شیخ عثیمین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’اگر یہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو کیوں حکم نہ فرمایا کہ وہ پردہ کر لے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ عورت احرام سے تھی اور غیر محرم کی عدم موجودگی میں اس کے لیے ننگے منہ رہنا مشروع تھا اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردہ کرنے کا حکم فرما دیا ہو،کیونکہ اس کا حکم منقول نہ ہونا اس بات کی دلیل تو نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم ہی نہیں دیا تھا۔‘‘[3] حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے خثعمی عورت کی طرف دیکھنے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کا رخ موڑنے کے واقعہ والی حدیث کا جواب شیخ محمد امین شنقیطی نے اپنی تفسیر ’’أضواء البیان‘‘ میں دو طرح سے دیا ہے: 1۔ اس حدیث کی روایات میں سے کسی میں بھی یہ صراحت وارد نہیں ہوئی کہ وہ عورت ننگے منہ تھی
Flag Counter