Maktaba Wahhabi

375 - 699
دیکھ رہا ہے: {فَأَخْلَفَ بِیَدِہٖ فَأَخَذَ بِذُقْنِ الْفَضْلِ فَعَدَّلَ وَجْھَہٗ عَنِ النَّظْرِ إِلَیْھَا} ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کو ٹھوڑی سے پکڑا اور ان کا منہ دوسری طرف پھیر دیا،تاکہ وہ اس عورت کو دیکھ نہ پائیں۔‘‘ اسی حدیث میں آگے یہ مذکور ہے کہ اس عورت نے پوچھا:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’إِنَّ فَرِیْضَۃَ اللّٰہِ فِي الْحَجِّ عَلٰی عِبَادِہٖ أَدْرَکَتْ أَبِيْ شَیْخاً کَبِیْراً لَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یَّسْتَوِیَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ فَھَلْ یُقْضَیٰ عَنْہُ أَنْ أَحُجَّ عَنْہُ؟‘‘ ’’اﷲ کی طرف سے اس کے بندوں پر عائد کردہ فریضۂ حج میرے باپ پر اُس وقت فرض ہوا،جبکہ وہ انتہائی ضعیف العمر ہوگیا،حتیٰ کہ وہ سواری پر بھی بیٹھا نہیں رہ سکتا۔اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو کیا یہ اس کی طرف سے ہوجائے گا؟‘‘ اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {نَعَمْ}[1] ’’ہاں۔‘‘ جبکہ یہی واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی سنن ترمذی،مسند احمد،زوائد مسند اور الاحادیث المختارہ للضیاء المقدسی میں مروی ہے۔اس کی سند کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور محدث البانی نے بھی اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔اس روایت میں ایک خاص بات یہ مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کا یہ واقعہ(دس ذوالحجہ)یومِ نحر میں رمی کر چکنے کے بعد قربانی کے وقت پیش آیا تھا،جس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ اس عورت کا سوال کرنا ایسے وقت تھا،جبکہ وہ حالتِ احرام میں نہیں تھی۔[2] اس واقعے سے بھی قائلینِ جوازِ کشف استدلال کرتے ہیں کہ عورت کا چہرہ مقامِ ستر نہیں۔بقول علامہ ابن حزم(3/218)اگر چہرہ مقامِ ستر ہوتا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو لوگوں کے مابین ننگے منہ نہ رہنے دیتے،بلکہ حکم فرماتے کہ سر سے کپڑا گِرا کر پردہ کر لے اور اگر اس کا چہرہ ڈھانپا ہوا
Flag Counter