Maktaba Wahhabi

360 - 699
حافظ ابو بکر جرجانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں ذکر کیا ہے: ’’میرے علم کے مطابق اس روایت کو قتادہ سے سعید بن بشیر کے سوا کسی نے بیان نہیں کیا اور وہ کبھی تو خالد بن دریک عن عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں اور کبھی عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں۔‘‘[1] یہی وجہ ہوگی کہ محدّثینِ کرام نے ان کے حافظے پر بطورِ خاص کلام کیا ہے،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے شیخ عبدالقادر حبیب اﷲ السندی نے نقل کیا ہے۔انھوں نے علامہ ذہبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس راوی کو منکر الحدیث قرار دیا ہے،پھر عبداﷲ بن نمیر کا قول نقل کیا ہے،جس میں وہ کہتے ہیں کہ سعید بن بشیر قتادہ سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔امام ابو زرعہ نے الضعفاء میں کہا ہے: ’’لَا یُحْتَجُّ بِہٖ‘‘(یہ قابلِ حجت راوی نہیں)یہی بات ابو حاتم رازی نے بھی کہی ہے۔[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں سعید بن بشیر کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس سند میں قتادہ کا خالد بن دریک سے عنعنہ بھی ہے،جبکہ وہ مدلس ہے۔[3] ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ’’الحلال والحرام في الإسلام‘‘ میں زیرِ بحث حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اس حدیث میں تو ضعف پایا جاتا ہے،البتہ اسے بعض وہ احادیث تقویت پہنچاتی ہیں جو بگاڑ سے امن کی شکل میں چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنے کی اباحت کا پتا دیتی ہیں۔‘‘[4] جبکہ ان کا تعاقب کرتے ہوئے شیخ صالح الفوزان نے ’’الإعلام‘‘ میں لکھا ہے: ’’ہم موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کو تقویت پہنچانے والی جن صحیح احادیث کا انھوں نے دعویٰ کیا ہے،ان کا تعین کریں اور وہ حدود بتائیں جن میں فتنہ و بگاڑ سے امن میں رہا جا سکتا ہو اور وہ بھی اجنبی و غیر محرم عورت کو دیکھتے وقت۔‘‘[5]
Flag Counter