Maktaba Wahhabi

354 - 699
’’خود بخود ظاہر ہو‘‘،اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیے گئے ہیں،جیسا کہ سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت سعید بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ان الفاظِ قرآنیہ کی تفسیر میں فرمایا: ’’مَا فِي الْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ‘‘ ’’جو کچھ چہرے پر اور ہاتھوں میں ہے۔‘‘ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں حضرت سعید بن جبیر ہی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آیتِ نور کے ان الفاظ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: {اَلْکُحْلُ وَالْخَاتَمُ}[1] ’’(جو خود بخود ظاہر ہوجائے)اس سے مراد سرمہ اور انگوٹھی ہے۔‘‘ گویا کبھی﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کی تفسیر چہرے اور ہاتھ اور کبھی سرمے اور انگوٹھی اور کبھی ان سب اعضا و اشیا سے کی ہے۔ اسے بنیاد بنا کر فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جنھیں ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’حَبرِ امت‘‘ کہا جاتا ہے،ان کے نزدیک جب مراد یہ اعضا ہیں تو ان کا پردہ ان کے مقاماتِ ستر میں سے نہ ہونے کی وجہ سے واجب نہ ہوا اور صحابی کی تفسیر حجت ہوتی ہے۔ پھر فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ سورت نور کی آیت(30)میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ﴾[النور:30] ’’مسلمانوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ ان الفاظ میں ان کے بقول اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ عورت کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ تو کھلا رہتا ہوگا،جس کی طرف نظر کا جانا ممکن ہے،لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے مومن مردوں کو حکم فرمایا کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں اور وہ کھلا حصہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا کوئی اور نہیں ہے،اس طرح اس فریقِ ثانی نے چہرے اور ہاتھوں کو مقامِ ستر سے خارج قرار دیتے ہوئے ان کا پردہ واجب نہیں صرف افضل سمجھا ہے۔
Flag Counter