Maktaba Wahhabi

316 - 699
شرط ہوتا تو حدیث میں بیان ہوتا۔ آگے چل کر امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث کا تم کیا کرو گے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: {إِحْرَامُ الرَّجُلِ فِيْ رَأْسِہٖ،وَإِحْرَامُ الْمَرْأَۃِ فِيْ وَجْھِہٖ} ’’مرد کا احرام سر میں ہے اور عورت کا احرام چہرے میں ہے۔‘‘ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے چہرے کو مرد کے سر کے قائم مقام قرار دیا ہے اور یہ حدیث عورت کے چہرے کو حالتِ احرام میں ننگا رکھنے کے وجوب کی دلیل ہے۔ (اُس معترض کو ہم یہ کہیں گے کہ)اس حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی کوئی اصل ہی نہیں،قابل اعتماد کتبِ حدیث کے مؤلفین میں سے اس کی روایت کسی نے بھی نہیں کی اور نہ اس کی سند کا کوئی پتا ہے اور نہ یہ قابلِ حجت ہے۔ایسی لا اصل حدیث کے مقابلے میں اس صحیح کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا چہرہ(بحالتِ احرام)مرد کے بدن کی طرح ہے اور اس حالت میں اس کے لیے ایسے کپڑے سے منہ ڈھانپنا منع ہے،جو چہرے کے سائز کے مطابق تیار کیا گیا،جیسے عربی نقاب یا عربی برقع وغیرہ ہیں،چہرے کو مطلق ڈھانپنا منع نہیں،جیسا کہ ہاتھوں کا بھی حکم ہے۔[1]واللّٰه اعلم نقاب و برقع کے ساتھ عربی لفظ کا ہم اس لیے ذکر کر رہے ہیں کہ ہمارے یہاں اردو میں ان دونوں الفاظ کے مدلول میں اور عربی الفاظ کے مدلول میں کافی فرق ہے،لہٰذا نقاب سے وہ نقاب مراد نہ لیا جائے،جو ہمارے یہاں خواتین کے برقع کا ایک جز ہوتا ہے اور نہ اس عربی برقع سے ہمارے یہاں کا مروج برقع مراد ہے۔سرِ دست ہم ان الفاظ کی لغوی تشریح میں نہیں جانا چاہتے،کیونکہ اس کا اصل موقع ’’مسائلِ حج‘‘ ہے۔[2] نقاب والی اس حدیث کے سلسلے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب ’’إعلام الموقعین‘‘ میں لکھا ہے:
Flag Counter