Maktaba Wahhabi

295 - 699
ہوتا تھا،لیکن وہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہو۔ یہ حکم بوڑھی عورتوں کے لیے ہے،جبکہ نوجوان عورت صاحبِ حسن و جمال ہے اور جس میں جاذبیت و دلکشی کا عنصر پایا جاتا ہے،اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ چادر اتار دے،بلکہ اس پر واجب ہے کہ اپنے پروردگار کے اس حکم کا التزام کرے،جس میں اسے چادر اوڑھنے اور چہرہ تک چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا اسے وجوباً حکم ہے نہ کہ استحباباً و اختیاراً۔امر کا صیغہ جو ادناے جلباب میں ہے تو امر وجوب کے لیے ہوتا ہے،جب تک کہ کوئی قرینۂ صارفہ نہ ہو اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے،بلکہ﴿غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍ﴾کے الفاظ نوجوان عورت کے لیے چہرے کے پردے کے واجب ہونے کی ایک دوسری دلیل ہے،جبکہ بوڑھی عورتوں کے لیے بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ چادریں اتار پھینکیں،بلکہ انھیں بھی اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اجازت کے باوجود اگر وہ حیا داری کریں اور چادر اوڑھے رہیں تو یہی ان کے لیے بہتر ہے،جیسا کہ﴿وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ﴾کے الفاظ کی تفسیر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے یہ کی ہے: ’’أَيْ وَتَرْکُ وَضْعِھِنَّ لِثِیَابِھِنَّ،وَإِنْ کَانَ جَائِزًا،خَیْرٌ وَّ أَفْضَلُ لَھُنَّ‘‘[1] ’’بوڑھی عورتوں کے لیے اگرچہ چادر اتار دینا جائز ہے،لیکن ان کے لیے بہتر و افضل یہی ہے کہ وہ چادریں نہ اتاریں۔‘‘ امام ابو حیان نے اپنی تفسیر ’’البحر المحیط‘‘ میں﴿وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ﴾کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ چادریں اتارنے سے پرہیز و حیا داری کریں اور نوجوان عورتوں ہی کی طرح ستر میں رہیں تو ان کے لیے یہی افضل ہے۔جبکہ ایک دوسرے مفسر امام بغوی رحمہ اللہ نے یوں تفسیر کی ہے: ’’وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ فَلَا یُلْقِیْنَ الْحِجَابَ وَالرِّدَآئَ‘‘[2] ’’اگر وہ چادر نہ ہی اتاریں اور باپردہ ہی رہیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سلف صالحینِ امت کی خواتین نے بڑھاپے میں چادر اتار دینے کی اجازت
Flag Counter