Maktaba Wahhabi

292 - 699
ہے،جو اُوڑھنی کو سر پر لپیٹنے اور منہ ڈھانپنے کا مفہوم رکھتا ہے،چنانچہ امام ابن الاثیر نے ’’غریب الحدیث‘‘ میں لکھا ہے کہ عبیداﷲ بن عدی بن خیار کی حدیث میں ہے کہ وہ آئے جبکہ وہ اپنے عمامہ سے اعتجار کیے ہوئے تھے تو وحشی کو ان کی دونوں آنکھوں اور پاؤں کے سوا کچھ نظر نہ آیا اور پگڑی اور عمامے سے اعتجار یہ ہوتا ہے کہ اسے سر پر لپیٹا جائے اور اس کے ایک کونے کو چہرے پر ڈال لیا جائے اور اس کپڑے کا کوئی حصہ ٹھوڑی کے نیچے سے نہ نکالا جائے۔[1] نیز فتح الباری کے حوالے سے پہلے بھی فرّاء کا قول ذکر کیا جا چکا ہے کہ عہدِ جاہلیت میں عورتیں اپنے سر کے کپڑے پیچھے کی جانب لٹکا دیا کرتی تھیں،جس کے نتیجے میں ان کے چہرے وغیرہ کھلے رہ جاتے تھے تو انھیں پردے کا حکم دیا گیا۔[2] ان دونوں تشریحی اقوال سے معلوم ہوا کہ چہرے کا پردہ ہے اور نہ صرف یہ کہ محض استحباباً ہے،بلکہ وجوباً ہے،جیسا کہ فراء کے الفاظ ’’فَأُمِرْنَ بِالْإِسْتِتَارِ‘‘ سے پتا چلتا ہے۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین اپنے رسالے ’’المرأۃ المسلمۃ أحکام فقھیۃ حول الحجاب‘‘(ص:11)میں لکھتے ہیں: ’’عورت کو جب اپنے سینے پر اوڑھنی کا پلو ڈالے رکھنے کا حکم ہے تو چہرے کا پردہ بھی اس پر واجب ہے،کیونکہ چہرے کا پردہ گریبان کے پردے کا لازم ہے یا قیاس کا تقاضا ہے،کیونکہ جب گلے اور سینے کا پردہ واجب ہے تو چہرے کا پردہ بالاولیٰ واجب ہے،کیونکہ چہرہ ہی تو مقامِ حسن و جمال اور باعثِ فتنہ ہے اور جو لوگ جمالِ صورت کا مطالبہ کرتے ہیں،وہ صرف چہرے کے جمال ہی کی بات ہوتی ہے اور جب کوئی کہے کہ فلاں عورت بہت حسین و جمیل ہے تو اس کی بات سے اس کے چہرے کے جمال کے سوا اور کوئی معنیٰ نہیں سمجھا جاتا،کیونکہ طلب و خبر ہر دو اعتبار سے چہرہ ہی مقامِ حسن و جمال ہے اور جب ایسا ہے تو پھر یہ کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ مبنی بر حکمت شریعتِ اسلامیہ عورت کے گلے اور سینے کے پردے کا تو حکم دے اور چہرہ ننگا رکھنے کی اجازت دے دے؟‘‘[3]
Flag Counter