Maktaba Wahhabi

273 - 699
ان کا ڈھانپنا ضروری ہے،بلکہ کپڑے میں وسعت کے ہوتے ہوئے ننگے کندھوں سے نماز بعض کے نزدیک تو ہوتی ہی نہیں۔اگرچہ جمہور نے اس نہی کو نہی تنزیہی قرار دیا ہے کہ نماز میں کندھوں کو ننگے رکھنا ٹھیک نہیں،اس سے پرہیز ہی بہتر ہے،البتہ نماز ہوجائے گی۔ نماز کے علاوہ کندھوں کو ننگا کرنے میں حرج نہیں۔نماز میں انھیں ڈھانپنا حقوق و آدابِ نماز کی وجہ سے ہے،جب کہ اس کے برعکس معاملہ عورت کے چہرے،ہاتھوں اور پاؤں کا ہے کہ صحیح تر قول کے مطابق وہ ان اعضا کو غیر محرم کے سامنے ننگا نہیں رکھ سکتی،لیکن نماز میں ان کا ڈھانپنا بالاتفاق واجب نہیں ہے،بلکہ نماز میں چہرہ ننگا رکھنے کے جواز پر تو اجماع ہے۔جمہور کے نزدیک ہاتھوں کا ننگا رکھنا بھی جائز ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک پاؤں بھی ننگے رکھ سکتی ہے۔اس سلسلے میں امام صاحب کے مسلک کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سب سے قوی قرار دیا ہے۔[1] اگر کبھی عورت کو کسی ایسی جگہ نماز پڑھنی پڑھے،جہاں اجنبی مرد بھی موجود ہوں تو وہاں اسے ان اعضا کو بھی ڈھانپنا ہوگا،کیونکہ غیر محرم لوگوں کی موجودگی میں عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے،جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ}’’عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے۔‘‘ حتیٰ کہ اس کے سر کے بال بھی مقامِ ستر ہیں،جیسا کہ ایک صحیح حدیث ذکر کی جا چکی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلَاۃَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ}[2] ’’اﷲ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر(سر ڈھانپے بغیر)قبول نہیں کرتا۔‘‘ ابھی پچھلے اوراق میں ان بعض احادیث کا تذکرہ بھی کیا جا چکا ہے،جن میں سے ایک حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس میں پیروں کو بھی مقامِ ستر شمار کیا گیا ہے،لہٰذا غیر محرم لوگوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز پڑھے تو پاؤں کو بھی ڈھانپ کر پڑھے اور یہی معاملہ گلی بازار چلتے وقت بھی ہے،البتہ اکیلے میں نماز کے وقت پاؤں کھلے رکھ سکتی ہے۔
Flag Counter