Maktaba Wahhabi

257 - 699
جائے گا۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کا جو یہ اثر تعلیقاً بیان کیا ہے،اسے امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں موصولاً روایت کیا ہے،اور ان کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’لَوْ أَخَذَتِ الْمَرْأَۃُ ثَوْبًا فَتَقَنَّعَتْ بِہٖ حَتّٰی لَا یُرَیٰ مِنْ شَعْرِھَا شَیْیٌٔ أَجْزَأَ عَنْھَا‘‘[1] ’’اگر عورت ایک ہی بڑے کپڑے کو اپنے جسم پر اس طرح لپیٹ لے کہ اس کے بال تک بھی نظر نہ آئیں تو وہ کپڑا اُسے کفایت کر جائے گا۔‘‘ ایسے ہی اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرفوع حدیث سے بھی عورت کی ایک بڑے کپڑے میں نماز کے جواز پر استدلال کیا ہے،جو صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم،سنن اربعہ،سنن دارمی و بیہقی،مسند احمد و طیالسی،صحیح ابی عوانہ،موطا امام مالک،مصنف ابن ابی شیبہ اور معانی الآثار طحاوی میں بھی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتی ہیں: {لَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّيْ الْفَجْرِ فَیَشْھَدُ مَعَہٗ نِسَآئٌ مِّنَ الْمُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ فِيْ مُرُوْطِھِنَّ ثُمّ یَرْجِعْنَ إِلٰی بُیُوْتِھِنَّ مَا یَعْرِفُھُنَّ أَحَدٌ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے،مسلمان عورتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت میں شریک ہوا کرتی تھیں اور وہ اپنی بڑی بڑی چادروں میں لپٹی ہوئی ہوتی تھیں،پھر وہ گھروں کو لوٹتیں تو انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے نمازِ فجر کا وقت متعین کرنے کے لیے بھی وارد کیا ہے،لیکن اس سے پہلے ایک ہی بڑے کپڑے میں نماز کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ان کے استدلال پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ بڑی بڑی چادریں دوسرے کپڑوں کے اوپر ہوتی تھیں نہ کہ صرف وہی ہوتی تھیں،اس اعتراض کو شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یوں رفع کیا ہے کہ اصل تو ان بڑی چادروں کے علاوہ کسی دوسرے کپڑے کا عدم ہی ہے اور کوئی صراحت بھی نہیں ملتی کہ دوسرے کوئی کپڑے بھی ہوتے تھے،پھر امام بخاری رحمہ اللہ کا اختیار عموماً ان آثار سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے،جنھیں عادتاً وہ ترجمۃ الباب میں
Flag Counter