Maktaba Wahhabi

255 - 699
کی اس مقدار کو واجب قرار دیا ہے اور ان دو میں سے ایک پاؤں تک آنے والی قمیص یا میکسی اور دوسری سر کی اوڑھنی یا دوپٹا ہے۔قمیص کے ساتھ ہم ’’پاؤں تک آنے والی‘‘ کی شرط اس لیے لگا رہے ہیں کہ عہدِ قدیم تو کیا آج تک بھی عرب عورتوں کے لباس میں قمیص(درع)کے نام سے جو کپڑا معروف ہے،وہ پاؤں تک ہی ہوتا ہے،جیسے مردوں کی قمیص بھی ہے اور ثوب کہلواتی ہے اور پاؤں تک ہوتی ہے۔اسی قمیص(درع)کو آج کل عربوں میں کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے،جس کا نعم البدل لفظ ہمارے یہاں وہ میکسی ہے،جو ہاتھوں اورپاؤں تک سارے جسم پر پوری ہو۔ وہ میکسی ہرگز نہیں جو صرف کندھوں تک ہی ہوتی ہے یا پاؤں تک نہیں پہنچ پاتی،یا بالفاظِ دیگر یوں کہہ لیں کہ عربی اکیلی قمیص یا درع کا متبادل لباس ہمارے یہاں شلوار اور قمیص یا انھی کا کام دینے والے کسی بھی دوسرے نام کے کپڑے ہیں۔ بہ وقتِ ضرورت و مجبوری صرف ایک ہی کپڑے میں بھی نماز ہوجائے گی،بشرطیکہ وہ کپڑا اتنا بڑا ہو کہ سر تاپاؤں ڈھانپنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس بنیادی وضاحت کے بعد آئیے! دیکھیں کہ نماز میں عورت کے لیے ضروری لباس کے سلسلے میں آثار سے کیا پتا چلتا ہے؟ چنانچہ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا: ’’فِيْ کَمْ تُصَلِّيْ الْمَرْأَۃُ مِنَ الثِّیَابِ؟‘‘(عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟) تو انھوں نے فرمایا:جاؤ جا کر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھو اور وہ جو جواب دیں،وہ آکر مجھے بتاؤ۔سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو انھوں نے بتایا: ’’فِي الْخِمَارِ وَالدِّرْعِ السَّابِغِ‘‘(سر کی اوڑھنی اور پاؤں تک کی قمیص میں) سائل لوٹ کر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آگیا اور انھیں اس جواب کے بارے میں بتایا تو انھوں نے فرمایا:’’صَدَقَ‘‘[1](علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے۔) اس اثر کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں،البتہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور مکحول رحمہ اللہ کے مابین ایک راوی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتا ہے اور جس سے مکحول رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں،اس راوی کا نام اس سند میں مذکور نہیں،لیکن نفسِ مسئلہ کے صحیح ہونے کا پتا اس اثر کی تائید کرنے
Flag Counter