Maktaba Wahhabi

245 - 699
میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {لَا تَبْدَأُوا الْیَھُوْدَ وَلَا النَّصَاریٰ بِالسَّلَامِ}[1] ’’(غیر مسلم)یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں پہل مت کرو۔‘‘ اگر اسے عدمِ پہچان کی وجہ سے سلام نہیں کہتا،حالانکہ وہ مسلمان ہے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے ارشاد کی نافرمانی ہوتی ہے،جو صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،الادب المفرد،صحیح ابن حبان اور ابو عوانہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں پوچھا گیا:بہترین اسلام کونسا ہے؟ تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفْہُ}[2] ’’کھانا کھلاؤ اور سلام کہو،چاہے تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔‘‘ یہ صورتِ حال مسلمانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے،جس میں عمامہ و ٹوپی کا عام حالات میں استعمال نہ کرنا بھی اہم رول ادا کر رہا ہے اور ڈاڑھی منڈوانا اور مغربی طرز کے لباس کا عام استعمال اس پر مستزاد ہے۔یہ سب عوامل مل کر افشاے سلام کے عملِ خیر میں رکاوٹ بن رہے ہیں،جبکہ افشاے سلام یعنی ہرکس و ناکس کو سلام کہنے کا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے،جیساکہ الادب المفرد امام بخاری،صحیح مسلم،سنن ابو داود و ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {لَا تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا،أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْیٍٔ إِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ}[3]
Flag Counter