Maktaba Wahhabi

238 - 699
اور جب اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ منقول نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ ایک خود ساختہ بدعت ہے،لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔‘‘[1] اب رہی یہ بات کہ ننگے سر نماز کو خشوع کی علامت قرار دینے کے لیے اور اس کا جواز و استحباب پیدا کرنے کے لیے اسے موسمِ حج میں حالتِ احرام میں حاجی کے ننگے سر رہنے پر قیاس کیا جائے،جیسا کہ کتبِ فقہ میں وارد ہوا ہے(اور انصار السنۃ مصر کے بعض اخوان نے بھی اس سے جواز پر استدلال کیا ہے)تو یہ قیاس درست نہیں،بلکہ صاحب ’’تمام المنۃ‘‘ نے اسے قیاسِ باطل قرار دیا ہے،کیونکہ دورانِ احرام ننگے سر رہنا حج کا شعار ہے اور یہ فعل مناسکِ حج میں سے ہے،جس میں دوسری کوئی عبادت اس کے برابر نہیں ہوسکتی،اور اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو پھر لازماً یہ بھی کہنا پڑتا کہ ننگے سر نماز پڑھنا مستحب نہیں بلکہ واجب ہے،کیونکہ حج میں(دورانِ احرام)سر ننگا رکھنا واجب ہے اور یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس کی رو سے اس قیاس سے رجوع کیے بغیر کوئی چارۂ کار ہی نہیں رہتا۔وَلَعَلَّھُمْ یَفْعَلُوْنَ۔[2] 2۔ فقہ السنۃ میں ایک دوسری بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔ مولف کا کسی بھی دلیل کے وارد ہونے کی مطلقاً نفی کر دینا صحیح نہیں،البتہ اگر وہ کہتے کہ افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی خاص دلیل وارد نہیں ہوئی تو پھر ان کی یہ بات مسلّم ہے،اگرچہ کسی خاص دلیل کا نہ ہونا کسی عام دلیل کے وارد ہونے کی نفی بھی نہیں کرتا اور سر کو ڈھانپنے کی عام دلیل موجود ہے اور اس قاعدے پر بھی تمام(علماے اصول)کا اتفاق ہے کہ جب کوئی معارض و مخالف دلیل نہ ہو تو عام دلیل بھی حجت ہوتی ہے اور وہ عام دلیل ہے کہ نماز کے لیے دورِ حاضر سے کچھ پہلے کا معروف اسلامی لباس پہن کر اس سے زینت اختیار کرنا،دورِ سلف صالحین میں ننگے سر رہنا،چلنا پھرنا اور اسی حالت میں ہی مساجد میں چلے جانا عرفِ عام میں اچھی ہیئت شمار نہیں کیا جاتا تھا اور یہ بات ان کے یہاں خلافِ زینت تھی۔[3] نماز کے وقت زینت کو اختیار کرنے کا خود اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
Flag Counter