Maktaba Wahhabi

228 - 699
ظاہر ہے کہ جب ایک کپڑے میں نماز کو جائز قرار دیا گیا ہے تو یقینا اس میں سر کو ڈھانپنا شامل نہیں ہوسکتا،جو ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل ہوسکتی ہے۔ فقہ السنہ میں سید سابق نے لکھا ہے: ’’حنفیہ کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ ننگے سر نماز پڑھنا خشوع کے لیے ہو تو یہ ان کے نزدیک مستحب ہے۔‘‘[1] مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں پانچ سو علماے احناف کی مرتب کی ہوئی کتاب فتاویٰ عالمگیری میں فقہ حنفی کی کتاب ’’الذخیرہ‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے: ’’یُکْرَہُ الصَّلَاۃُ حَاسِرًا رَأْسَہٗ إِذَا کَانَ یَجِدُ الْعَمَامَۃَ وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ تَکَاسُلًا وَتَھَاوُنًا،وَلَا بَأْسَ بِہٖ إِذَا فَعَلَہٗ تَذَلُّلاً وَخُشُوْعًا،بَلْ ھُوَ حَسَنٌ،کَذَا فِي الذَّخِیْرَۃِ‘‘ ’’ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے،جبکہ اس کے پاس عمامہ بھی موجود ہو اور اس نے سستی کرتے ہوئے اور عمامہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھی ہو اور اگر وہ خشوع و خضوع کے لیے ننگے سر نماز پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔کتاب الذخیرہ میں ایسے ہی لکھا ہے۔‘‘ ایسے ہی فقہ حنفی کی معروف کتاب شرح وقایہ میں مکروہاتِ نماز کے ضمن میں لکھا ہے: ’’وَصَلَاتُہٗ حَاسِراً رَأْسَہٗ لِلتَّکَاسُلِ أَوْ لِلتَّھَاوُنِ بِھَا،لَا لِلتَّذَلُّلِ‘‘ ’’سستی کی وجہ سے یا عمامہ سے بے پروائی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا تو مکروہ ہے،لیکن تذلل و انکساری کے لیے ایسا کیا جائے تو پھر مکروہ نہیں ہے۔‘‘ شرح وقایہ کے حاشیے ’’عمدۃ الرعایۃ‘‘ میں مولانا عبدالحی حنفی رحمہ اللہ ’’للتذلل‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’لَا لِلتَّذَلُّلِ أَيْ لِقَصْدِ التَّذَلُّلِ وَإِظْھَارِ الْخُشُوْعِ،لَا لِلتَّذَلُّلِ،فَإِنَّ الْخُشُوْعَ فِي الصَّلَاۃِ أَمْرٌ مُّسْتَحْسَنٌ وَھُوَ وَإِنْ کَانَ مِنْ أَفْعَالِ الْقَلْبِ لٰکِنْ لَا بَأْسَ بِإِظْھَارِ آثَارِہٖ فِي الظَّاھِرِ‘‘ یعنی اگر ننگے سر نماز پڑھنا تذلل و انکساری کے لیے ہو تو مکروہ نہیں،ان الفاظ ’’تذلل کے
Flag Counter