Maktaba Wahhabi

207 - 699
ائمہ میں سے پہلے دو کے نزدیک ناف تو مقامِ ستر نہیں،لیکن امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ناف مقامِ ستر ہے اور اس کے برعکس گھٹنے مقامِ ستر نہیں ہیں۔ ان اعضا کو مقامِ ستر قرار دینے والوں نے دلائل کے طور پر جو احادیث ذکر کی ہیں،ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ہے،بلکہ ان پر کلام کیا گیا ہے،جس کی تفصیل ذکر کرنے کے بجائے طالب کے لیے ہم ’’منتقی الأخبار‘‘ کے ساتھ ’’نیل الأوطار‘‘(1/2/65۔67)کے مطالعہ کا مشورہ دیتے ہیں یا پھر انھوں نے قیاس سے کام لیا ہے اور وہ اس طرح کہ سنن ابو داود،دارقطنی،بیہقی،مسند احمد اور تاریخ بغداد کی حدیث میں جو آیا ہے: {مَا بَیْنَ السُّرَّۃِ وَالرُّکْبَۃِ عَوْرَۃٌ}[1]’’ناف اور گھٹنوں کے مابین مقامِ ستر ہے۔‘‘ اس حدیث کی سند کو بھی بعض کبار محدّثینِ کرام نے حسن قرار دیا ہے۔[2] وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جن اعضا کو بطورِ حد کے بتایا گیا ہے،وہ انھی اعضا کے ساتھ شاملِ حکم ہیں،جن کی حد بندی کی گئی ہے،یعنی جب ناف اور گھٹنوں کے اندرونی حصے کو مقامِ ستر کہا ہے،تو ناف اور گھٹنے بھی اس میں شامل ہوئے،جیسا کہ وضو کے لیے دھونے والے اعضا کے بیان میں ہاتھوں کی کلائیوں کو کہنیوں تک دھونے کا حکم ہے،تو کہنیاں بھی دھوئی جاتی ہیں۔﴿وَاَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ﴾لیکن ان کا یہ قیاس صحیح نہیں ہے،کیونکہ وضو میں کہنیوں کو محض حد کے محدود میں شامل ہونے کی وجہ سے نہیں دھویا جاتا،بلکہ ان کے دھونے کی الگ مستقل دلیل موجود ہے،وہ اس بات کو اس لیے بھی بطورِ دلیل پیش نہیں کر سکتے کہ ان میں سے بعض ناف کو مقامِ ستر مانتے ہیں تو گھٹنوں کو نہیں اور بعض گھٹنوں کو مانتے ہیں تو ناف کا انکار کرتے ہیں،لہٰذا انکار پر جو جواب وہ دیتے ہیں،وہی ہمارا بھی ہوسکتا ہے۔[3] غرض کہ حکم کو اصل پر ماننا ہی واجب ہے اور اصل براء ت کو اختیار کرنا ہی ضروری ہے،جب تک کوئی ایسی دلیل ثابت نہ ہوجائے،جو براء ت اصلیہ سے حکم کو منتقل کر دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر لغوی اعتبار سے جن اعضا کو مقامِ ستر کہا جاتا ہے،وہ مقامِ ستر ہوں گے یا پھر ان کے ساتھ رانوں
Flag Counter