Maktaba Wahhabi

200 - 699
’’مالکیہ اور دوسرے فقہا اس حدیث سے ران کے ستر نہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں،حالانکہ اس میں ان کے لیے دلیل کی گنجایش نہیں ہے،کیونکہ اس حدیث میں شک کے الفاظ ہیں کہ رانیں کھلی تھیں یا پنڈلیاں،لہٰذا اس سے رانوں کے کھلی ہونے کا جزم لازم نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے،جو سنن بیہقی،معانی الآثار طحاوی اور مسند احمد میں ہے،جسے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے طبرانی کبیر و اوسط کی طرف بھی منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے،اس میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی بالکل ایسا ہی واقعہ بیان کرتی ہیں،جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔البتہ اس میں ہے: {کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عِنْدِيْ یَوْمًا،وَقَدْ وَضَعَ ثَوْبَہٗ بَیْنَ فَخِذَیْہِ}[1] ’’ایک دن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں بیٹھے تھے اور اپنے کپڑوں کو دونوں رانوں کے درمیان ڈالے ہوئے تھے۔‘‘ بظاہر مفہوم اس حدیث کا بھی وہی ہے،جو پہلی حدیث کا ہے،لہٰذا اس سے بھی ران کو ستر نہ ماننے والوں کا استدلال ممکن ہے۔ اس کا ایک دوسرا شاہد مشکل الآثار طحاوی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے،جس میں کنواں(تالاب)بھی تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے کنارے پر بیٹھ گئے اور قدم مبارک اندر کی طرف لٹکا دیے۔ {وَبَعْضُ فَخِذِہٖ مَکْشُوْفٌ}’’جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک کا کچھ حصہ ننگا تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میں دروازے پر بیٹھ جاؤں،میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ ہی جنت کی خوشخبری بھی سنا دو۔حضرت صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے،بشارت سن کر اﷲ کی تعریف کی اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہی پاؤں لٹکا کر کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئے،پھر
Flag Counter