Maktaba Wahhabi

146 - 699
{اَللّٰہُ اَکْبَرُ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ} پھر دوبارہ یہ کہا: {أَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،أَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِِ،حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ}[1] یہاں یہ چیز پیشِ نظر رہے کہ شہادتین کو دہرایا ہے اور اسے ترجیع کہا جاتا ہے۔یہ طریقہ صحیح و ثابت ہے۔امام مالک وشافعی اور جمہور علما اسی حدیث کے پیشِ نظر اذان میں ترجیع کی مشروعیّت کے قائل ہیں اور امام ترمذی کے بقول اہلِ مکہ کا عمل اسی پر ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اور علامہ مبارکپوری نے تحفت الاحوذی میں اہلِ مدینہ اور دیگر شہروں کا عمل بھی اسی کے مطابق ذکر کیا ہے۔صحیح مسلم و نسائی کی مذکورہ حدیث اور اذان میں ترجیع کی تائید سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ اور دیگر کتبِ حدیث میں مذکور صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے۔لہٰذا بلاوجہ ترجیع کے جواز و مشروعیّت کا انکار درست نہیں ہے۔علامہ خلیل احمد سہار نپوری نے ’’بذل المجہود‘‘ میں اور علامہ انور شاہ کاشمیری نے ’’العرف الشذي‘‘ میں ترجیع والی احادیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔[2] جب ترجیع کے ساتھ اذان کہی جائے تو اس میں پہلے شہادتین کو ذرا آہستہ آواز سے کہا جاتا ہے اور دوسری مرتبہ زور سے اور کھینچ کر کہا جاتا ہے،جیسا کہ سنن ابو داود میں متعدد طُرق سے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔[3] اذان کا دوسرا طریقہ وہی ہے،جو عام طور پر معروف ہے،یعنی مذکورہ تمام کلمات بلا ترجیح دو دو بار کہے جائیں،سوائے آخر میں ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ ایک بار ہی کہنا ہے،
Flag Counter