Maktaba Wahhabi

575 - 589
نیز فرمایا: ﴿ وَ مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا﴾ [آل عمران: ۱۴۵] [کسی کے بس میں نہیں کہ مر جائے، ہاں اذنِ الٰہی سے مر سکتا ہے، اس کی موت کا معین وقت لکھا ہے] کسی کو لڑائی میں سیکڑوں زخم لگتے ہیں ، کسی کو کوئی زہر پلا دیتا ہے، کوئی ہیرا کھا لیتا ہے، لیکن نہیں مرتا ہے، کیونکہ ابھی اس کی اجل نہیں آئی ہوتی ہے۔ کوئی فرش پر بیٹھے بیٹھے ناگہاں مر جاتا ہے،کسی کو چلتے پھرتے راستے میں موت آجاتی ہے، حالانکہ وہ مریض ہوتا ہے نہ اس کو کسی طرح کی شکایت ہوتی ہے نہ کسی دکھ درد کا شکار ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اجل پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ اہلِ حدیث کا عقیدہ ہے کہ جو شخص مر گیا یا قتل ہوا، اس کی اجل پوری ہوگئی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِھِمْ﴾ [آل عمران: ۱۵۴] [کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں رہو، تب بھی وہ لوگ جن کی موت لکھی ہے، وہ اپنی موت گاہ پر پہنچیں گے] اہلِ علم نے کہا ہے کہ مقتول اپنی اجل مقدر سے مرتا ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ اس کی اجل آئی ہی نہیں تھی، اجل سے پہلے کسی کے قتل کرنے سے مر گیا۔ اس مدعا کی دلیل مذکورہ آیات ہیں ۔ موت میت کے ساتھ لگی ہے اور وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ﴾ [الملک: ۲] [اللہ نے موت اور حیات کو پیدا کیا] موت اور اجل یعنی مرگ اور مدتِ مرگ اہلِ سنت کے نزدیک ایک ہی چیز ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ مقتول کے لیے دو اجل ہیں : ایک قتل اور ایک موت۔ اگر مارا نہ جاتا تو اپنی اجل یعنی موت تک جیتا رہتا، درست نہیں ۔ فلاسفہ کا یہ قول ہے کہ جاندار کی ایک طبعی اجل ہے۔ اپنی اجل تک
Flag Counter